خلیجی ریاست قطر میں تانبے سے بنے رحم مادر کے مجسموں کی دوبارہ نقاب کشائی کر دی گئی۔ یہ مجسمے قطری دارالحکومت دوحہ کے ایک ہسپتال میں نصب کیے گئے ہیں۔
اشتہار
دوحہ کے جس ہسپتال میں رحم مادر کے مجسموں کو نصب کیا گیا ہے، اُس کا نام سدرا میڈیسن ہسپتال ہے۔ یہ وسیع و عریض ہسپتال قطری حکومت نے آٹھ بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا ہے۔ ہسپتال میں اس آرٹ ورک کو قطر فاؤنڈیشن کی حمایت سے نصب کیا گیا ہے۔
سدرا ہسپتال میں کھلے عام نصب کیے جانے والے ان مجسموں کو ’ حیران کن سفر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کے تخلیق کار برطانوی مجسمہ ساز ڈیمیئن ہرسٹ ہیں۔ حکام اور عوام نے اس شاندار آرٹ ورک کو مجسمہ سازی کی ایک شاندار کاوش قرار دیا ہے۔ ان مجسموں میں ایک بچے کو وقت ولادت دکھایا گیا ہے۔ ’حیران کن سفر‘ کے عنوان کے تحت ڈیمیئن ہِرسٹ کے کل پینسٹھ مجسمے سدرا میڈیسن ہسپتسال میں نصب کیے گئے ہیں۔ ہر ایک مجسمے کی بلندی چودہ میٹر ہے۔
قطر فاؤنڈیشن کی آرٹ اسپیشلسٹ لیلیٰ ابراہیم باشا کا کہنا ہے کہ یہ مجسمے پوری طرح سدرا ہسپتال کے مشن کا اظہار ہیں اور اس میں بچے اور ماں کی ہیلتھ کیئر کا پیغام عام کیا گیا ہے۔ قطر فاؤنڈیشن دوحہ حکومت کی سرپرستی میں کام کرتی ہے اور ہسپتال میں نصب کیے جانے والے اسکلپچر کے نمونوں کی مالک بھی ہے۔
لیلیٰ ابراہیم نے ان مجسموں کی تنصیب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کو مقصدیت کے ایک خاص پیغام کے ساتھ نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے تنصیب کا مقام بھی درست ہے۔ ان مجسموں نے قطری باشندوں اور دوسرے غیر ملکیوں کو حیران کر دیا ہے۔ بے شمار لوگوں نے ہسپتال کے باہر پہنچ کر اس شاندار آرٹ ورک کی تصاویر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
لیلیٰ ابراہیم نے یہ بھی کہا کہ ان مجسموں کی تنصیب زیبائش کے لیے نہیں کی گئی بلکہ مریضوں اور اُن کے ساتھ آنے والوں کے لیے غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ برطانوی مجسمہ ساز ڈیمیئن ہِرسٹ کے یہ مجسمے پہلی مرتبہ سن 2013 میں عام کیے گئے تھے لیکن بعد میں کچھ عوامی حلقوں کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی تنقید پر ڈھانپ دیا گیا تھا۔ حکومت نے انہیں ڈھانپنے کو ان کی حفاظت قرار دیا تھا۔
اسی ہسپتال میں ایک شامی فوٹو گرافر جابر العظمہ کی ایک پینٹنگ نصب کی گئی ہے۔ العظما نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں انہیں مسرت ہوئی ہے کہ اُن کی تصویر ہسپتال میں نصب کی گئی ہے وہاں ان مجسموں کا اُس ہسپتال میں نصب کیا گیا ہے جہاں نئی زندگیاں دنیا میں جنم لے رہی ہیں۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔