ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ قطر مہمان مزدوروں کے استحصال کو روکنے کے اپنے وعدے پورے نہیں کر رہا۔ 2022ء کے فٹ بال کے عالمی کپ کی تیاری کے سلسلے میں غیر ملکی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد میں قطر میں کام کر رہی ہے۔
اشتہار
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے آج جمعرات 19 ستمبر کو ‘‘All Work, No Pay’’ نامی ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے، ''2022ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کے حوالے سے کیے گئے بڑے بڑے وعدوں کے باوجود قطر بے اصول آجروں کے لیے کھیل کا ایک میدان بنا ہوا ہے۔‘‘
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر منظر عام پر آئی ہے، جب آج جمعرات کو فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے پیرس میں ملاقات کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قطر میں غیر ملکی مزدوروں کو درپیش حالات کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ اصلاحات کے باوجود ان مزدوروں کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق اس شرمناک استحصال کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔
مزدوروں کا عالمی دن اور اس کی تاریخ
مزدور تنظیمیں اور تحریکیں گزشتہ 150 برسوں میں بہت کچھ حاصل کر چکی ہیں۔ اس کی جڑیں اس صنعتی دور سے جڑی ہوئی ہیں، جب مزدورں نے فیکڑی مالکان کے استحصالی رویے کے خلاف بغاوت کی تھی۔
تصویر: Getty Images
صنعتی انقلاب کے فائدے اور نقصانات
صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے اختتام پر برطانیہ میں ہوا۔ جہاں تکنیکی ترقی ہوئی ، وہاں سماجی بحرانوں نے بھی جنم لیا۔ صنعتی پیداوار کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مزدورں نے فیکٹری مالکان کے استحصالی طریقوں کے خلاف آواز بلند کی۔ سب سے پہلا احتجاج برطانیہ میں ہوا، جہاں مشینوں کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد نے توڑ پھوڑ کی۔
تصویر: imago/Horst Rudel
کمیونسٹ منشور
دوسری جانب صنعتی یونٹس میں کام کرنے والوں کے حالات بھی بُرے تھے۔ انہیں دن میں زیادہ وقت کام کرنا پڑتا، اجرت کم تھی اور حقوق نہ ہونے کے برابر۔ انہوں نے اتحاد قائم کیا۔ کارل مارکس (تصویر) اور فریڈرک اینگلز نے مظلوم کارکنوں کو ’کمیونسٹ منشور‘ نامی پروگرام دیا۔ اس کا مقصد طبقاتی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے غریب طبقے کی متوسط طبقے کے خلاف جیت تھی۔
تصویر: picture-alliance /dpa
مزدور تحریک سے سیاسی تحریک
سن 1864ء میں پہلی مرتبہ مختلف مزدور تنظیمیں نے بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے اتحاد کیا۔ نتیجے کے طور پر ٹریڈ یونینز اور سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، مثال کے طور پر جنرل جرمن ورکرز ایسوسی ایشن (ADAV) اور سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی (SDAP) کا ظہور ہوا۔ ان دونوں جماعتوں کے اتحاد سے سیاسی جماعت ایس پی ڈی وجود میں آئی، جو آج بھی جرمن سیاست کا لازمی جزو ہے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
سوشلسٹ بمقابلہ کمیونسٹ
جرمن سوشل ڈیموکریٹک جماعت دیگر یورپی ملکوں کے لیے ایک مثال بنی۔ اس جماعت کی مزدوروں کے حقوق کے لیے جنگ نظریاتی طور پر متاثرکن تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سے یورپی ملکوں میں مزدور تحریک سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے مابین تقسیم ہوگئی۔ کیمونسٹ لینن (تصویر) نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی، جو تقریباﹰ 70 برس قائم رہا۔
تصویر: Getty Images
نازیوں کے ہاتھوں یونینز کی تحلیل
تقسیم کے باوجود 1920ء کی دہائی میں مزدور تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یونینز کے پہلے کبھی بھی اتنے زیادہ رکن نہیں تھے۔ جرمنی میں نیشنل سوشلسٹوں کے اقتدار میں آنا ان کے لیے خاتمے کا سبب بنا۔ آزاد یونینز کو تحلیل کر دیا گیا۔ بہت سے یونینز عہدیداروں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور چند ایک کو پھانسی بھی دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈی ڈی آر میں بغاوت
دوسری عالمی جنگ کے بعد ڈی ڈی آر میں آزاد جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (FDGB) کی چھتری تلے اور اتحادیوں کے زیرنگرانی یونینز کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ 17 جون 1953ء کو وہاں بغاوت کا سماں تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مزدور کارکنوں نے سیاسی قیادت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ سوویت فوجیوں نے فسادات کو کچل دیا۔ اس وقت FDGB حکومت کے ساتھ تھی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
مزدور تحریک بغیر مزدوروں کے
سن 1945ء کے بعد جمہوری ریاستوں میں مزدور تحریک کی اہمیت میں نمایاں کمی ہوئی۔ بہت ہی کم صنعتی کارکن یونینز کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں خواتین اور ماحول سے متعلق نئی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یونین کے صدر سے ملکی صدر
جو مزدور یونین ملکی سرحدوں سے بھی باہر نام بنانے میں کامیاب رہی وہ پولینڈ کی ’یکجہتی‘ نامی تنظیم تھی۔ اس کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی اور چند ماہ بعد ہی یہ ایک عوامی تحریک میں بدل گئی۔ دس برس بعد اس کا سیاست میں کردار انتہائی اہم تھا۔ اس کے پہلے چیئرمین لیک والیسا 1990ء میں پولینڈ کے صدر بنے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آج کی مزدور تحریک
آج بھی ٹریڈ یونینز اور بائیں بازو کی جماعتیں بہترکام اور اچھے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ، کم اجرتوں اور کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ آج یکم مئی کو لیبر ڈے کے موقع پر جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (DGB) نے اپنا موٹو ’’بہتر کام، سوشل یورپ‘ رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images
9 تصاویر1 | 9
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں تعمیراتی اور صفائی ستھرائی کرنے والی تین کمپنیوں میں کام کرنے والے ایسے کئی سو مزدوروں سے بات چیت کی، جنہیں کئی مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ''مہمان مزدور اکثر اپنے خاندانوں کو بہتر زندگی مہیا کرنے کی امید کے ساتھ قطر جاتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی تنخواہوں کے حصول کی خاطر کئی ماہ ادھر ادھر صرف کرنے کے بعد بغیر کسی رقم کے واپس پہنچتے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سلسلے میں قطری محکموں کی جانب سے انہیں کم ہی تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔
قطر میں 2022ء کے فٹ بال کے عالمی کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ شدید تنقید کی بعد قطر 2017ء میں بین لاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر روزگار کے شعبے میں اصلاحات کرنے پر رضامند ہوا تھا۔ اس میں تنازعات کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی کا قیام بھی شامل تھا۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔