قطر نے اٹلی کو چار جنگی بحری جہازوں کا آرڈر دے دیا
مقبول ملک روئٹرز
2 اگست 2017
سعودی عرب اور اس کے اتحادی چند عرب ملکوں کے ساتھ قریب دو ماہ سے تنازعے کی شکار خلیجی ریاست قطر نے یورپی ملک اٹلی کو چار جنگی جہازوں سمیت سات بحری جہازوں کی خریداری کا پانچ ارب یورو مالیت کا آرڈر دے دیا ہے۔
اشتہار
قطری دارالحکومت دوحہ سے بدھ دو اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق قطر کے وزیر خارجہ نے آج بتایا کہ یہ سمجھوتہ قطر اور اٹلی کے مابین دفاعی شعبے میں تعاون کا حصہ ہے، جس کے تحت اب روم اور دوحہ کے مابین سات بحری جہازوں کی خریداری کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
اس معاہدے کا اعلان قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے دوحہ میں اطالوی ہم منصب انجیلینو الفانو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ اس مشترکہ بات چیت سے قبل دونوں وزراء نے آج ہی آپس میں ایک ملاقات بھی کی، جس میں قطر اور اس پر پابندیاں عائد کرنے والی چار عرب ریاستوں کے مابین تنازعے کے خاتمے کے موضوع پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔
اس موقع پر شیخ محمد نے کہا، ’’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ قطر اور اٹلی کے مابین عسکری شعبے میں تعاون کے تحت ایک ایسا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے بعد اٹلی قطر کی نیوی کو سات بحری جہاز مہیا کرے گا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق قطری وزیر خارجہ نے کہا کہ دفاعی شعبے میں اس دوطرفہ معاہدے کی مالیت قریب پانچ ارب یورو بنتی ہے۔ تاہم انہوں نے اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہ بتائیں اور یہ بھی واضح نہ کیا کہ اس معاہدے میں اٹلی کے کون کون سے ادارے شامل ہوں گے۔
قبل ازیں گزشتہ برس جون میں اٹلی کی سرکاری انتظام میں کام کرنے والی شپ بلڈنگ کمپنی ’فِنکانتِئیری‘ (Fincantieri) نے بتایا تھا کہ اس نے قطر کے لیے چار ارب یورو مالیت کے متعدد بحری جہاز تیار کرنے کے معاہدے پر ابتدائی دستخط کر دیے ہیں۔
تب اس بہت بڑے اطالوی صنعتی ادارے نے کہا تھا کہ وہ قطر کے لیے چار جنگی بحری جہاز، دو عسکری امدادی بحری جہاز اور بحری افواج کے استعمال میں آنے والا ایک amphibious لینڈنگ پلیٹ فارم بھی تیار کرے گا۔ ساتھ ہی اسی معاہدے کے تحت قطر کو یہ بحری جہاز مہیا کرنے کے بعد 15 برسوں تک ان بحری جہازوں سے متعلق جملہ سپورٹ سروسز بھی فراہم کی جائیں گی۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel
8 تصاویر1 | 8
دیگر رپورٹوں کے مطابق اطالوی شپ یارڈز میں قطر کے لیے ان جنگی اور غیر جنگی بحری جہازوں کی تیاری 2018 میں شروع ہو جائے گی۔ ان جہازوں کے لیے الیکٹرانکس اور ہتھیاروں سمیت تمام عسکری نظام دفاعی شعبے کی اطالوی کمپنی لیونارڈو کی طرف سے مہیا کیے جائیں گے۔
قطر کا سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ تنازعہ اب قریب دو ماہ پرانا ہو چکا ہے۔ ان ملکوں نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور معاونت کا الزام لگاتے ہوئے دوحہ کے ساتھ اپنے تمام سفارتی، تجارتی اور دیگر روابط منقطع کر رکھے ہیں۔ قطر اپنے خلاف لگائے گئے ان جملہ الزامات کی تردید کرتا ہے۔