قطر کا بحران: تنازعہ عرب لیگ سمٹ کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں
13 اپریل 2018
خلیج کے خطے میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے قطر کی ناکہ بندی کے باعث پیدا ہونے والا بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ یہ تنازعہ عرب لیگ کی آئندہ سمٹ کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
اشتہار
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے جمعہ تیرہ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جمعرات کی شام صحافیوں کو بتایا کہ قطر کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلیجی بحران ایک ایسا تنازعہ ہے، جو خطے کی چھ ریاستوں پر مشتمل خلیجی تعاون کی کونسل یا جی سی سی کی سطح پر حل کیا جائے گا۔
عرب لیگ جزیرہ نما عرب، قرن افریقہ اور شمالی افریقہ کی کل 22 عرب ریاستوں کی ایک ایسی تنظیم ہے، جس میں جنگ زدہ ملک شام کی ایک رکن ریاست کے طور پر شمولیت نومبر 2011ء سے معطل ہے۔ اس تنظیم کا ایک سربراہی اجلاس سعودی عرب کی میزبانی میں آئندہ اتوار 15 اپریل کو ہو گا، جس میں اکیس ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت حصہ لیں گے۔
قطر کا بحران بنیادی طور پر چونکہ ایک عرب تنازعہ ہے، اس لیے اس تناظر میں سعودی وزیر خارجہ الجبیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’قطر کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلیجی بحران اس سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔‘‘ دوسری طرف خود قطر نے تصدیق کر دی ہے کہ وہ اس سمٹ میں شریک ہو گا۔
قطر کا بحران دس ماہ قبل اس وقت شروع ہوا تھا، جب سعودی عرب اور اس کے متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین جیسے اتحادی ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اس کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کا االزام لگا دیا تھا۔ ساتھ ہی ان ممالک نے قطر کے ساتھ اپنے تمام سفارتی، تجارتی اور سیاسی رابطے منقطع کرتے ہوئے اِس خلیجی ریاست کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ، جو بنیادی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب اور سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس برآمد کرنے والی ریاست قطر کے مابین ہے، خلیج کی سیاسی تاریخ کا آج تک کا شدید ترین بحران بن چکا ہے۔
اس تنازعے کے آغاز پر گزشتہ برس جون میں سعودی عرب نے دوحہ میں قطری حکمرانوں پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہوئے خطے میں سعودی عرب کی سب سے بڑی حریف ریاست ایران کے ساتھ قریبی روابط کو بھی فروغ دے رہے تھے۔ اس کے برعکس قطر کا، جس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور جس کو سعودی عرب دس ماہ پہلے ہی بند کر چکا ہے، دعویٰ ہے کہ اس کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات غلط ہیں۔
اب یہ تنازعہ، جس کی وجہ سے خطے کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہو چکا ہے، اس لیے اور بھی شدید ہو گیا ہے کہ سعودی عرب میں حکومت کے قریبی میڈیا نے اسی ہفتے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ ریاض حکومت قطر کے ساتھ اپنی سرحد پر اسی سرحد کی طوالت کے برابر ایک بڑی نہر بھی کھدوانا چاہتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اب اگر قطر کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے تو اس نہر کی تعمیر کے بعد قطر ایک جزیرہ ریاست بن جائے گا۔ یہ نہر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نجی شعبوں کی طرف سے مشترکہ طور پر مہیا کردہ مالی وسائل سے تعمیر کی جائے گی اور سعودی میڈیا کے مطابق ریاض میں حکام نہ صرف اس منصوبے کے بھرپور حامی ہیں بلکہ حکومت اس کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
م م / ع ق / اے ایف پی
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔