دسمبر میں کویت کے زیر اہتمام مجلس برائے خلیجی تعاون کے سربراہی اجلاس سے قوی امیدیں وابستہ تھیں کہ قطر بحران اب حل ہونے کو ہے تاہم تمام تر امیدیں ایک مرتبہ پھر دم توڑ گئیں۔ نويد أحمد کا تبصرہ۔
اشتہار
دسمبر میں کویت کے زیر اہتمام مجلس برائے خلیجی تعاون کے سربراہی اجلاس سے قوی امیدیں وابستہ تھیں کہ قطر سے کشیدگی کا مسئلہ اب حل ہونے کو ہے، جون میں مقاطع کے اعلان کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور قطر کے قائدین ایک چھت کے نیچے موجود ہوتے۔
کویت کے امیر شیخ جابر الاحمد الصباح کی کاوشوں کے باعث قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی شرکت کے لیے آئے اور سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی شرکت کی حامی بھری لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر سعودی فرمانروا نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیا۔
یوں یہ دو روزہ سربراہی اجلاس چند گھنٹوں میں ہی ختم ہوگیا۔ وزارات خارجہ کے اجلاس کے ختم ہوتے ہی تمام مندوبین اپنے اپنے ممالک روانہ ہوگئے۔ چھ ماہ کی طوالت پر پھیلی ہوئی اس کشیدگی کو ختم کرنے کا سنہری موقع ضائع ہوگیا۔
کویت اجلاس کی ناکامی پورے خطے کے لیے افسوس کا باعث بنی جبکہ کویت اور قطر دونوں کو ہی تحقیر کا نشانہ بنایا گیا۔ سعودی عرب کے نرم رویے میں تبدیلی کا باعث مصر اور اماراتی دباﺅ کو گردانا جارہا ہے۔
پانچ جون سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی، کاروباری، سفری اور عسکری تعلقات منقطع کرتے وقت 10 مطالبات پیش کیے اور دس روز کی مہلت دی۔ ان میں نمایاں مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ قطر ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرے اور پاسداران انقلاب سے متعلق افراد کو ملک بدر کرے۔
2۔ الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کو بند کیا جائے اور العربیہ اور الجدید جیسے نیٹ ورکس کو بھی ختم کرے۔
3۔ ترکی کا فوجی اڈہ بند کیا جائے۔
4۔ اخوان المسلمون اور دیگر تنظیموں جیسے حزب اللہ اور فتح الاشام کو دہشت گرد قرار دے۔
5۔ ان تمام افراد یا اداروں کی مالی مدد، پناہ گزینی ختم کرے، جن کو سعودی عرب، امارات، بحرین اور مصر نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔
6۔ قطر ہمسایہ ممالک میں مداخلت اور سیاسی انتشار بازی کو ختم کرے۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
قطر نے مذاکرات پر تو آمادگی کا اظہار کیا مگر ملکی سالمیت اور وقار پر سمجھوتے کو خارج از امکان قرار دے دیا۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی کوششوں کے باعث 10 دن گزرنے کے باوجود قطر پر مزید پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔
کویت ابتداء سے اس معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش میں مصروف رہا ہے۔ اس کے 88 سالہ امیر پوری عرب دنیا میں احترام کے نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ایک دیرینہ سفارتکار ہونے کے علاوہ وہ منجھے ہوئے وزیر خارجہ بھی رہے ہیں۔ شیخ الصباح کی کاوش کے نتیجے میں خفیہ مذاکرات کے ذریعے اس کشیدگی میں اضافہ تو نہ ہوا مگر قطر پر منفی معاشی اثرات ضرور مرتب ہوئے۔
قدرتی گیس کی نعمت سے مالا مال قطر نے اب تک کسی قسم کا ٹیکس یا راہداری عائد نہیں کی ہے۔ قطری ریال کی قدر بھی بدستور برقرار ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قلت تو نہیں ہوئی مگر قیمتوں میں قدرے اضافہ ضرور ہوا ہے۔
حال ہی میں قطر نے ایران اور ترکی سے تجارتی مال کی رسد کا معاہدہ کیا ہے۔ وہ تمام تر اجناس اور آلات جو پہلے عرب ہمسایہ ممالک سے منگوائے جاتے تھے اب وہ ترکی، ایران اور پاکستان سے درآمد ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں ترکی اور قطر کی تجارت میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی قدر 300 ملین ڈالر ہے۔
قطر نے ترکی کے زرعی شعبے میں 650 ملین ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی کیا، جس کا مقصد مستقبل میں زرعی اجناس کی بلا تعطل فراہمی ہے۔ مزید برآں آسٹریلیا سے گائے کی درآمد سے ملک میں دودھ کی ضرورت کو پورا کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔
باہمی تعلقات میں کشیدگی کے باعث ہمسایہ ممالک (سعوی عرب امارات، بحرین) قطر میں اپنی املاک اور کاروبار فروخت کر رہے ہیں تاکہ سرمایہ واپس لے جایا سکے۔ قطر بھی جواب میں حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ مثلاً دوحہ میں 25منزلہ ڈولفن ٹاور جو اماراتی شیخ حمدال بن زید النہیان کی ملکیت ہے، فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق اس بحران کے باعث مستقبل قریب میں اقتصادی پھیلاﺅ کے اہداف کم کرنے پڑسکتے ہیں۔
اگرچہ تعمیراتی اور مہمان نوازی کے سیکٹر میں قطر میں بحران کا خاطر خواہ اثر دکھائی دیتا ہے مگر خطے اور عالمی تعلقات کے برعکس قطر اندرونی معاشی یا سیاسی بحران سے محفوظ رہا ہے۔ قطری عوام نے بھی مشکل وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
مجموعی طور پر خلیجی ممالک کے باہمی تعاون کو دھچکا ضرور پہنچا ہے اور اس مسئلے حل ہونے کے بعد حالات پہلے جیسے بہتر ہو جائیں گے۔ سعودی عرب میں بدلتے حالات کے پیش نظر امکان ہے کہ قطر سے تعلقات میں بہتری ترجیحات میں شامل ہے۔ البتہ ریاض، ابوظہبی، ماناما اور قاہرہ کی رضامندی کے بغیر آگے بڑھنے کا روادار نہیں ہوگا۔
کویت میں سربراہی اجلاس کا انعقاد نہ ہونا قطری قیادت کے لیے قدرے مایوس کن ضرور ہے مگر تاحال دوحہ کی پالیسی میں سختی نہیں آئی۔ سعودی عرب اور امارات میں بھی اس اجلاس پر خاطر خواہ بحث ہوئی۔ تمام خلیجی ممالک امریکا یا مغربی دنیا سے بہترین تعلقات کے باوجود خطے کے معاملات کو باہمی طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کویت کی مصالحتی کاوشیں ابھی بھی امید کی علامت ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم میں سفارتخانے کی منتقلی کے اعلان نے دنیا کی توجہ دیگر مسائل سے ہٹا دی ہے۔ فی الوقت مشرق وسطیٰ کے دیگر تنازعات کی طرح قطر سے کشیدگی کا مسئلہ بھی حل کیے بنا دوسری شہ سرخیوں میں دبتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ خلیجی ممالک میں کشیدگی پوری دنیا کی معاشی صورتحال پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔