قطر کے ساتھ تنازعہ، عالمی عدالت کا امارات کے خلاف فیصلہ
24 جولائی 2018
عالمی عدالت برائے انصاف نے اپنے ایک عبوری مگر نافذ العمل فیصلے میں متحدہ عرب امارات سے کہا ہے کہ وہ قطری شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ قطر نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
اشتہار
پیر کے روز بین الاقوامی عدالت برائے انصاف میں جیوری کے سات کے مقابلے میں آٹھ ججوں نے قطری شہریوں کے حقوق کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ابوظہبی حکومت ایسے خاندانوں کو ملنے دے، جن کے کچھ افراد قطری شہری ہیں۔ اسی طرح اس عدالتی فیصلے میں متحدہ عرب امارات سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ قطری طلبہ کو متحدہ عرب امارات میں تعلیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
گزشتہ برس جون میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور متعدد دیگر خلیجی ممالک نے قطر کے ساتھ تمام تر سفارتی اور سفری تعلقات ختم کر دیے تھے۔ ان ممالک کا الزام ہے کہ قطری حکومت دہشت گردوں کی معاونت میں ملوث ہے، تاہم دوحہ حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کے اس فیصلے میں متحدہ عرب امارات کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ قطری شہریوں کے حامل خاندانوں کو ملنے اور ساتھ رہنے کی اجازت دی جانا چاہیے اور متحدہ عرب امارات میں تعلیم حاصل کرنے والے ایسے قطری طلبہ، جن کی تعلیم اس تنازعے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ گزشتہ برس جون میں اس تنازعے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تمام قطری شہریوں کو 14 روز کے اندر ملک سے چلے جانے کی ہدایات دی تھیں اور اس تناظر میں متعدد خاندان متاثر ہوئے تھے جب کہ متحدہ عرب امارات میں زیرتعلیم قطری طلبہ کی تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا تھا۔
عالمی عدالت برائے انصاف نے پیر کے روز اپنے فیصلے میں کہا کہ ابوظہبی حکومت کے متعدد اقدامات قطری شہریوں کے لیے ’ناقابل تلافی‘ نقصان کا سبب بن رہے ہیں اور سلسلے میں ایک مربوط منصوبہ بنایا جائے، تاکہ جدا ہو جانے والے خاندان دوبارہ مل سکیں۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel
8 تصاویر1 | 8
قطر نے اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب امارات کے ساتھ جاری تنازعے کو ہوا نہیں دینا چاہتا۔ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان احمد بن سعید الرمیحی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’ہم امارات کے ساتھ تنازعے میں مزید شدت نہیں چاہتے مگر ہم اپنے شہریوں کے خلاف تفریق کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
متحدہ عرب امارات کا عدالت میں موقف تھا کہ یہ معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اس فیصلے کے بعد ابوظہبی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عدالت نے اس معاملے میں فقط ’عبوری اقدامات‘ کا حکم سنایا ہے اور ان میں سے متعدد پر متحدہ عرب امارات پہلے ہی سے عمل کر رہا ہے۔