کورونا وبا کے دور میں فیکٹریوں میں بننے والے چہرے کے ماسکس میں شدید کمی دیکھی گئی۔ اس دور میں مختلف اقوام میں لوگوں نے مختلف قسموں کے حیران کن اور دلچسپ ماسک تخلیق کر رہے ہیں۔
اشتہار
کورونا وائرس کی مہلک وبا کے پھیلنے کے بعد چہرے کے ماسک لازمی قرار دیے جانے کے بعد ان کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ایسے میں لوگوں نے امیزون کے جنگلوں میں کیلے کے پتے سے بنے ماسک پہنے تو اٹلی میں کاغذ کے ماسک بھی بعض لوگوں کے چہروں پر دیکھے گئے۔ وبا کے دور میں انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں نے ماسک سازی میں حیران کن تجربات کیے۔
عالمی ادارہٴ صحت نے وبا کے پھیلاؤ کے شروع پر ہی کہہ دیا تھا کہ کووڈ انیس کی جان لیوا متعدی بیماری سے بچاؤ کے لیے متاثرہ علاقوں میں شہریوں کو لازمی طور پر چہرے کا ماسک پہننا ہو گا۔ اس تلقین پر جب حکومتوں نے عمل پیرا ہونے کا فاصلہ کیا تو فوری طور ماسک کی کمی پیدا ہو گئی۔ ایک وجہ ان کا کم ہونا ٹھہرا تو دوسری ذخیرہ اندوزوں نے زیادہ مال بنانے کے چکر میں ان کو اپنے اپنے گوداموں میں چھپا لیا۔
ماسک اور پابندی
چیک جمہوریہ اور اسرائیل کی طرح ماسک کی پابندی تو کئی ملکوں نے لازمی قرار دے دی لیکن ماسک کی دستیابی اس صورت میں بازاروں میں بہت ہی مشکل ہو گئی۔ دنیا کی طلب بڑھنے کے بعد مختلف فیکٹریوں میں بیس فیصد ماسک زیادہ بننے لگے تا کہ کھپت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ماسک کوئی سستی شے نہیں کیونکہ جراثیم سے محفوظ رکھنے والے ماسک مہنگے اور انہیں فیکٹریوں میں بنانا کسی حد تک ایک پیچیدہ عمل بھی ہے۔
تخلیقی صلاحیت
اس پریشانی کے عالم میں لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں نے کام دکھانا شروع کیا اور انواع و اقسام کے ماسک نظر آنے لگے۔ ایسے میں جعل سازوں نے بھی جعلی لیکن ہلکی کوالٹی کے ماسک مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دیے۔ ایک دوسرے کو محفوظ دیکھنے کی خاطر انسانی ہاتھ سے بنائے گئے ماسک لوگوں نے ایک دوسرے کو بنا کر دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے ان کی فروخت کو اپنی کمائی کا ذریعہ بھی بنا لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تخلیقی ماسک کسی بھی طور پر کلینیکل ماسک کا بظاہر نعم البدل تو نہیں تھے لیکن ضرورت ایجاد کا ماں ہوتی ہے۔
ہاتھوں سے ماسک سازی
چین کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ وائبو نے ہاتھوں سے بنے ماسک کی کئی تصاویر بھی اپ لوڈ کی ہیں۔ ٹویٹر نے امریکا سے بھارت تک اپنے صارفین کی ایسی تصاویر دکھا ڈالی جن میں وہ سلائی مشینوں پر بیٹھے ماسک بنانے میں مصروف دکھائی دیے۔ اٹلی میں کئی لوگوں نے بیکنگ پیپر کے ماسک بنا کر چہروں پر پہن رکھے ہیں۔ ان ماسک کو بنانے کا طریقہ اطالوی ٹیلی وژن پر بھی دکھایا گیا۔ چینی علاقے ہانگ کانگ میں پلاسٹک کی بوتلوں کو کاٹ کر بھی ماسک بنائے گئے۔
اختراعی ماسک
ایک مسلمان فرقے داؤدی بوہرہ کی خواتین نے گھروں میں سلائی کی مشینوں پر ماسک سازی شروع کر دی۔ برطانیہ میں کئی افرد نے پلاسٹک کے برتنوں کو بھی ماسک کے طور پر استعمال کیا۔ کیوبا اور جاپان میں بعض شہریوں نے اور طرح کی اختراع کرتے ہوئے رومال اور خواتین کے بریزیئر کو بھی اس مقصد کے لیے اپنایا۔ فلپائن میں بچوں کے ڈائپرز بھی ماسک کے طور پر استعمال کیے گئے۔ کینیا میں بعض سبزیوں کو ماسک بنانے سے بھی لوگوں نے گریز نہیں کیا۔
ایشیا سے امریکا تک، ماسک کی دنیا
آغاز پر طبی ماہرین نے ماسک پہننے کو کورونا وائرس کے خلاف بے اثر قرار دیا تھا لیکن اب زیادہ سے زیادہ ممالک اسے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری سمجھ رہے ہیں۔ ایشیا سے شروع ہونے والے ماسک پہننے کے رجحان پر ایک نظر!
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
گلوز، فون، ماسک
جرمنی بھر میں ماسک کب لازمی قرار دیے جائیں گے؟ انہیں ایشیا میں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ جرمنی کے روبرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے بھی ماسک پہننے کی تجویز دی ہے۔ یینا جرمنی کا وہ پہلا شہر ہے، جہاں عوامی مقامات اور مارکیٹوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
تصویر: Imago Images/Sven Simon/F. Hoermann
اپنی مدد آپ کے تحت
عالمی سطح پر ماسکس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں کئی لوگ ماسک خود بنانے کا طریقہ سیکھا رہے ہیں۔ یوٹیوب اور ٹویٹر پر ایسی کئی ویڈیوز مل سکتی ہیں، جن میں ماسک خود بنانا سکھایا گیا ہے۔ جرمن ڈیزائنر کرسٹین بوخوو بھی آن لائن ماسک بنانا سیکھا رہی ہیں۔ وہ اپنے اسٹوڈیو میں ریڈ کراس اور فائر فائٹرز کے لیے بھی ماسک تیار کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
مسکراہٹ
جرمن شہر ہنوور کی آرٹسٹ منشا فریڈریش بھی کورونا وائرس کا مقابلہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے تیار کردہ ماسک مسکراتے ہوئے چہروں اور معصوم جانوروں کی شکلوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ اس آرٹسٹ کے مطابق وہ نہیں چاہتیں کہ وائرس لوگوں کی خوش مزاجی پر اثر انداز ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
رنگین امتزاج
جمہوریہ چیک اور سلوواکیہ ایک قدم آگے ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہی مارچ کے وسط میں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ سلوواکیہ کی خاتون صدر اور وزیراعظم بطور مثال خود ماسک پہن کر عوام کے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد آسٹریا نے بھی دوران خریداری ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Svitok
چین میں بہار
چین میں کسی وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک پہن کر رکھنا روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے شروع میں ہی وہاں لوگوں نے ماسک پہننا شروع کر دیے تھے۔ وہاں اس وبا کے باوجود یہ جوڑا محبت کے شعلوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور باقی دنیا سے بے خبر بہار کا رقص کر رہا ہے۔
تصویر: AFP
اسرائیل، سب برابر ہیں
اسرائیل میں بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ پولیس اور فوج مل کر وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے کرفیو کو نافذ العمل بنا رہے ہیں۔ آرتھوڈکس یہودی بھی ان قوانین سے مبرا نہیں ہیں۔ یروشلم میں ایک پولیس اہلکار الٹرا آرتھوڈکس یہودی کو گھر جانے کی تلقین کر رہا ہے۔
تصویر: picture-lliance/dpa/I. Yefimovich
غزہ میں آرٹ
گنجان آباد غزہ پٹی میں لوگ ماسک کے ذریعے اپنی فنکارانہ صلاحیتیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ غزہ حکام نے تمام تقریبات منسوخ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ تیس مارچ کو اسرائیل کی سرحد کے قریب طے شدہ سالانہ احتجاجی مظاہرہ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Wire/A. Hasaballah
ماکروں کے گمشدہ ماسک
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں حفاظتی سوٹ اور ماسک تیار کرنے والی ایک فیکٹری کا دورہ کر رہے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹروں نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی سازوسامان مہیا کرنے میں ناکامی پر حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ حفاظتی سامان نہ ہونے کے باوجود بہت سے ڈاکٹروں نے مریض کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کا علاج کیا۔