1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'قلت کا علاج‘ گھر پر تیار کیے  گئے اختراعی ماسک

27 اپریل 2020

کورونا وبا کے دور میں فیکٹریوں میں بننے والے چہرے کے ماسکس میں شدید کمی دیکھی گئی۔ اس دور میں مختلف اقوام میں لوگوں نے مختلف قسموں کے حیران کن اور دلچسپ ماسک تخلیق کر رہے ہیں۔

Peru Coronavirus Eine selbstgemachte Gesichtsmaske
تصویر: Reuters/S. Castaneda

کورونا وائرس کی مہلک وبا کے پھیلنے کے بعد چہرے کے ماسک لازمی قرار دیے جانے کے بعد ان کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ایسے میں لوگوں نے امیزون کے جنگلوں میں کیلے کے پتے  سے بنے ماسک پہنے تو اٹلی میں کاغذ کے ماسک بھی بعض لوگوں کے چہروں پر دیکھے گئے۔ وبا کے دور میں انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں نے ماسک سازی میں حیران کن تجربات کیے۔

عالمی ادارہٴ صحت نے وبا کے پھیلاؤ کے شروع پر ہی کہہ دیا تھا کہ کووڈ انیس کی جان لیوا متعدی بیماری سے بچاؤ کے لیے متاثرہ علاقوں میں شہریوں کو لازمی طور پر چہرے کا ماسک پہننا ہو گا۔ اس تلقین پر جب حکومتوں نے عمل پیرا ہونے کا فاصلہ کیا تو فوری طور ماسک کی کمی پیدا ہو گئی۔ ایک وجہ ان کا کم ہونا ٹھہرا تو دوسری ذخیرہ اندوزوں نے زیادہ مال بنانے کے چکر میں ان کو اپنے اپنے گوداموں میں چھپا لیا۔

تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel

ماسک اور پابندی

چیک جمہوریہ اور اسرائیل کی طرح ماسک کی پابندی تو کئی ملکوں نے لازمی قرار دے دی لیکن ماسک کی دستیابی اس صورت میں بازاروں میں بہت ہی مشکل ہو گئی۔ دنیا کی طلب بڑھنے کے بعد مختلف فیکٹریوں میں بیس فیصد ماسک زیادہ بننے لگے تا کہ کھپت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ماسک کوئی سستی شے نہیں کیونکہ جراثیم سے محفوظ رکھنے والے ماسک مہنگے اور انہیں فیکٹریوں میں بنانا کسی حد تک ایک پیچیدہ عمل بھی ہے۔

تخلیقی صلاحیت

اس پریشانی کے عالم میں لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں نے کام دکھانا شروع کیا اور انواع و اقسام کے ماسک نظر آنے لگے۔ ایسے میں جعل سازوں نے بھی جعلی لیکن ہلکی کوالٹی کے ماسک مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دیے۔ ایک دوسرے کو محفوظ دیکھنے کی خاطر انسانی ہاتھ سے بنائے گئے ماسک لوگوں نے ایک دوسرے کو بنا کر دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں نے ان کی فروخت کو اپنی کمائی کا ذریعہ بھی بنا لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تخلیقی ماسک کسی بھی طور پر کلینیکل ماسک کا بظاہر نعم البدل تو نہیں تھے لیکن ضرورت ایجاد کا ماں ہوتی ہے۔

تصویر: Getty Images/C. Stache

ہاتھوں سے ماسک سازی

چین کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ وائبو نے ہاتھوں سے بنے ماسک کی کئی تصاویر بھی اپ لوڈ کی ہیں۔ ٹویٹر نے امریکا سے بھارت تک اپنے صارفین کی ایسی تصاویر دکھا ڈالی جن میں وہ سلائی مشینوں پر بیٹھے ماسک بنانے میں مصروف دکھائی دیے۔ اٹلی میں کئی لوگوں نے بیکنگ پیپر کے ماسک بنا کر چہروں پر پہن رکھے ہیں۔ ان ماسک کو بنانے کا طریقہ اطالوی ٹیلی وژن پر بھی دکھایا گیا۔ چینی علاقے ہانگ کانگ میں پلاسٹک کی بوتلوں کو کاٹ کر بھی ماسک بنائے گئے۔

اختراعی ماسک

ایک مسلمان فرقے داؤدی بوہرہ کی خواتین نے گھروں میں سلائی کی مشینوں پر ماسک سازی شروع کر دی۔ برطانیہ میں کئی افرد نے پلاسٹک کے برتنوں کو بھی ماسک کے طور پر استعمال کیا۔ کیوبا اور جاپان میں بعض شہریوں نے اور طرح کی اختراع کرتے ہوئے رومال اور خواتین کے بریزیئر کو بھی اس مقصد کے لیے اپنایا۔ فلپائن میں بچوں کے ڈائپرز بھی ماسک کے طور پر استعمال کیے گئے۔ کینیا میں بعض سبزیوں کو ماسک بنانے سے بھی لوگوں نے گریز نہیں کیا۔

 

ملیسا سُو ژی فان برونرسم  (ع ح / ع ا)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں