1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

’قلم بندوق سے نہیں ڈرتا‘

24 ستمبر 2020

شمالی نائجیریا دہشت گرد تنظیم بوکوحرام کی مسلح کارروائیوں کا گڑھ ہے۔ تاہم دہشت گردی سے بدترین متاثرہ شہر میڈیگوری کی جامعہ خوف کے ماحول کو مسترد کرتے ہوئے، بدستور کھلی ہے۔

Nigeria Maiduguri Universität
تصویر: Sally Hayden/ZUMA Press/Imago Images

شدت پسند تنظیم بوکوحرام کی بنیاد ہی تعلیمی سرگرمیاں روکنے پر ہے۔ بوکو حرام کا مطلب ہے تعلیم حرام۔ یہاں گو کے تعلیم سے مراد مغربی تعلیم ہے مگر یہ دہشت گرد تنظیم اپنی سب سے زیادہ کارروائیاں تعلیمی اداروں کے خلاف ہی کرتی رہی ہے۔

بوکوحرام کے حملوں میں چاڈ اور نائجیریا میں 150سے زائد فوجی ہلاک

’بوکوحرام خودکش بچوں کے استعمال میں تیزی لے آئی‘

یونی میڈ UNIMAID کے نام سے جانی جانے والی میڈیگوری شہر کی جامعہ اس شہر کا اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ ہے۔ ریاستی گورنر باباگانا عمارا زولوم، فوجی سربراہ توکُر یوسف براتی اور سینیٹ کے سربراہ احمد لاوان سمیت متعدد اعلیٰ حکومتی عہدیدار اسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہیں۔

اس جامعہ نے ستر کی دہائی میں اپنی خدمات کا آغاز کیا تھا اور اب تک ہزاروں طلبہ اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ پچھلی قریب دو دہائیوں میں بوکوحرام نے میڈیگوری شہر کو شدید متاثر کیا ہے اور اس دہشت گرد تنظیم کی سرگرمیوں کا کچھ اثر اس جامعہ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، تاہم یہ جامعہ اپنے اصل راستے سے کبھی نہیں ہٹی۔

بوکوحرام جھیل چاڈ کے اردگرد کے علاقوں میں اسلامی 'خلافت‘ کا قیام چاہتی تھی۔ سن 2009 میں بوکوحرام کے بانی محمد یوسف کو سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم اس گروہ کا نظریہ اور تشدد نائجیریا کے ساتھ ساتھ ہم سایہ ممالک تک میں پھیلتا چلا گیا۔ اس گروہ نے متعدد تعلیمی اداروں کی عمارتوں، استادوں، طلبہ اور دیگر عملے کو نشانہ بنایا، جب کہ اس گروہ کے نظریات کے اعتبار سے تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں اور خواتین خصوصی ہدف رہی ہیں۔

اس جامعہ کے باہر کھدی طویل خندق اس کی عمارت کو دہشت گردوں سے محفوظ بناتی ہے۔ مطالعہ موسیقیت کے جرمن محقق ڈاکٹر بیپومک ریوا کبھی میڈوگوری نہیں گئے تھے، کیوں کہ وہ اسے خطرناک جگہ سمجھتے تھے، تاہم سن 2016 میں جب انہیں پہلی بار اس جامعہ کے آس پاس کے حالات کو تفصیل سے بتایا گیا، تو وہ حیران ہو گئے اور تبھی انہیں نے اسے دستاویزی طور پر محفوظ کرنے کا سوچا۔

شمالی جرمن علاقے ہاڈزہائم کی جامعہ سے وابستہ ریوا کی کتاب 'اکیڈمیہ انڈر اٹیک: اکاؤنٹس آف دی بوکوحرام انسرجنسی ایٹ دی یونیورسٹی آف میڈیگوری‘‘ اس حوالے سے مفصل معلومات فراہم کرتی ہے۔ ریوا کہتے ہیں، ''یہ پہلا موقع تھا، جب مجھے علم ہوا کہ لوگ بوکوحرام کی کارروائیوں کا گڑھ کہلانے والے علاقے میں رہ رہے ہیں۔ پروفیسرز، محققین، پی ایچ ڈی طالب علموں وغیرہ نے بوکوحرام بحران سے متعلق مجھے بتایا۔ یہ وہ کہانی تھی، جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔‘‘

بوکوحرام کے قبضے سے 82 لڑکیاں چھڑانا ایک بڑی کامیابی

01:11

This browser does not support the video element.

ڈاکٹر ریوا نے یونیورسٹی آف میڈیگوری سے تعلق رکھنے والے 15 محققین کو انٹرویو کیا اور وہاں کے حالات کی تفصیلی اور عمومی آگاہی کے لیے تیرہ انٹرویوز شائع کیے۔ ان تمام افراد کے نام صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، تاہم چند ایک مسیحی بھی تھے۔ کچھ ایسے محققین سے بھی بات چیت کی گئی، جو خاندانی اعتبار سے افریقی پس منظر کے حامل ہیں تاہم ان کا تعلق برطانیہ یا امریکا سے ہے اور جو اپنے اہل خانہ کے ہم راہ میڈیگوری شہر میں رہ رہے ہیں۔

ڈاکٹر ریوا نے بتایا کہ ان میں سے بہت سے اسکالرز نے اس لیے تفصیل سے اپنی کہانی بیان کی، تاکہ بیرونی دنیا کو معلوم ہو کہ وہ کس طرح کام کر رہے ہیں اور وہاں کے حالات کیسے ہیں۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں