قندوز دوبارہ افغان فوج کے کنٹرول میں
1 اکتوبر 2015کابل سے جمعرات یکم اکتوبر کی صبح ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق عسکری حوالے سے انتہائی اہم قندوز شہر پر طالبان کا قبضہ تین روز تک برقرار رہا اور وہاں افغان سکیورٹی دستوں کی شدت پسندوں کے ہاتھوں شکست کابل حکومت کی نیٹو ماہرین کی طرف سے تربیت یافتہ فورسز کے لیے ایک تکلیف دہ دھچکا ثابت ہوئی تھی۔
اے ایف پی نے کابل میں افغان حکومتی نمائندوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ پیر کے روز قریب دو ہزار طالبان جنگجوؤں نے قندوز پر قبضہ کر لیا تھا تاہم تیس ستمبر اور یکم اکتوبر کی درمیانی رات ہونے والی شدید جھڑپوں کے بعد کابل حکومت کی فورسز اس شہر کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئیں۔
افغان حکومتی فورسز کی طرف سے قندوز پر قبضے کے دعووں کے بعد طالبان کی مقامی قیادت نے فوری طور پر یہ تردید کر دی تھی کہ عسکریت پسندوں کو اس شہر میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پھر جب کابل میں حکومتی نمائندوں نے بھی اس عسکری کامیابی کی تصدیق کر دی تو طالبان کی طرف سے اس پیش رفت کی تردید پس منظر میں چلی گئی۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ شمالی شہر قندوز پر طالبان عسکریت پسندوں کا قبضہ اگرچہ چند روزہ ہی ثابت ہوا تاہم جنگجوؤں کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز کو ان شدت پسندوں کی طرف سے کس قدر سخت مزاحمت کا سامنا ہے، جو زیادہ تر ملک کے جنوب میں اپنے زیر اثر علاقوں کے بعد اب دیگر خطوں میں بھی اپنے قدم جمانا چاہتے ہیں۔
مقامی شہریوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ آج جمعرات کی صبح تک حکومتی دستے قندوز شہر کے وسطی حصے کو اپنے کنٹرول میں لے چکے تھے تاہم شہر کے چند علاقوں میں سرکاری دستوں کی طالبان باغیوں کے ساتھ جھڑپیں ابھی تک جاری ہیں۔
افغانستان کے نائب وزیر داخلہ ایوب سالنگی نے صحافیوں کو بتایا کہ قندوز شہر پر کابل حکومت کی فورسز کا دوبارہ قبضہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کیے جانے والے ایک ’اسپیشل سکیورٹی آپریشن‘ کے بعد ممکن ہو سکا۔
قندوز پر قبضے کے دوران اور بعد میں طالبان نے کئی سرکاری عمارات کا کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی جیلوں میں قید اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو بھی رہا کرا لیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ اپنے پرچم بھی لہرا دیے تھے۔