جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کے اہم رہنما چاہتے ہیں کہ وفاقی پارلیمان میں موجود جماعتیں تحفظ ماحول کے موضوع پر کسی اتفاق رائے پر پہنچیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ZDF/S. Baumann
اشتہار
سی ایس یو کی سربراہ آنے گریٹ کرامپ کارین باؤر نے جرمن پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں سے ایسے اقدامات پر متفق ہونے کا مطالبہ کیا ہے، جن پر عمل کرتے ہوئے 2030ء تک ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کی جا سکے۔ کرامپ کارین باؤور نے یہ بیان جرمن نشریاتی ادارے ( زیڈ ڈی ایف) کو موسم گرما کے اپنے پہلے انٹرویو کے دوران دیا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر جرمن سیاسی جماعتوں اور حکومت میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جرمنی کی مخلوط حکومت چانسلر میرکل کی قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی، صوبہ باویریا میں ان کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین اور سوشل ڈیموکریکٹ پارٹی پر مشتمل ہے۔
کارین باؤر کے مطابق، ''ہمیں ماحولیات کے معاملے میں قومی سطح پر اتفاق رائے کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب رکن پارلیمان گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس آئیں گے، تو وہ مختلف جماعتوں سے رابطے کریں گی تا کہ کسی متفقہ نتیجے پر پہنچا جا سکے۔
ماحول دوست تدفین رواج پکڑتی ہوئی
جرمنی میں آخری رسومات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تحفظِ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔ اب ایسے تابوت تیار کیے جا رہے ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فوری طور پر قدرتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تصویر: ARKA Ecopod
بید سے بنا تابوت
جسے روایتی تابوت کی بناوٹ پسند نہ ہو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی لیے بید سے بُنے تابوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تابوت کی بُنائی کا کھلنا آسان ہوتا ہے اور اس کے اندر لگے کپڑے کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بید کا درخت بہت تیزی سے بھی بڑھتا ہے۔ اس انداز میں تدفین کے خواہش مند افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی ماحول دوست ہی رہے۔
تصویر: Passages International, Inc.
کفن
ہزاروں سالوں سے مردوں کو کپڑے میں لپیٹ کر دفنانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یورپ میں ابھی تک لوگ مردوں کو دفنانے کا یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تدفین کا یہ انداز کم خرچ ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کفن کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار ڈالر تک بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Gordon Tulley, Respect Funeral Services
اخباری کاغذ سے تیار کردہ تابوت
یہ بات بالکل بھی دلفریب نہیں لگتی کہ کوئی شخص اپنا آخری سفر اخبار کے دوبارہ کارآمد بنائے گئے صفحات میں طے کرے۔ اب اخبارات کے صفحات کو بھی خوبصورت تابوتوں کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہوں تو تابوت سونے کا بھی بنوایا جا سکتا ہے۔ آخر کار مرتا تو انسان صرف ایک ہی بار ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
کم وزن اور ہلکا پھلکا
اخبارات کے صفحات سے بنائے گئے تابوتوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دفنانے کے بعد یہ بہت جلد ہی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں، جو قبرستان کے قدرتی ماحول کے لیے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
اخبار سے بنایا گیا مصری راکھ دان
اخبارات سے تیار کردہ راکھ دان بھی اُسی کمپنی کی اختراع ہیں، جس نے اخباری کاغذ سے بنائے گئے تابوت متعارف کرائے ہیں۔ ڈیزائنر ہَیزل سیلینا کا کہنا ہے کہ قدیم مصر میں تجہیز و تکفین کی رسومات نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اخبارات سے راکھ دان بنانے کا خیال بھی اُن کے ذہن میں اِنہی مصری روایات کی وجہ سے آیا۔
تصویر: ARKA Ecopod
درخت کی طرح کا راکھ دان
مختلف شکلوں کے راکھ دان بنانے والی مختلف کمپنیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے برتن بھی بنائے ہیں، جن میں کھاد اور بیج بھی موجود ہوتے ہیں۔ سِرامک کا بنا اِس برتن کا ڈھکن اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب پودہ زمین سے اُبھرنا شروع کرتا ہے۔
تصویر: Spíritree
زیرِ آب راکھ دان
اپنی راکھ کے سمندر برُد کیے جانے کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے کاغذ سے بنا ہوا یہ خصوصی برتن تیار کیا گیا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین اِس برتن پر نقش و نگار بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے آخری پیغامات بھی اِس میں ڈال سکتے ہیں۔
تصویر: Passages International, Inc.
انسانی درخت
اس تھیلے میں لاش کو بالکل اُسی طرح سے رکھا جاتا ہے، جس طرح بچہ ماہ کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی ڈیزائنر نے پیش کیا۔ اس میں لاش ایک درخت کی غذا بنتی ہے۔ اطالوی حکومت نے ابھی تک مُردوں کو اس طرح سے ’دفنانے‘ کی اجازت نہیں دی اور اسے ’مستقبل کا ڈیزائن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Capsula Mundi
8 تصاویر1 | 8
ابھی اس معاملے میں سوشل ڈیموکریٹ وزیر برائے ماحولیات سوینیا شُلسے نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک منظم منصوبے اور اس پر فیس لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم سی ڈی یو اور سی ایس یو کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کے چند ارکان نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔
سی ڈی یو کی خاتون سربراہ نے تاہم اپنے انٹرویو میں اس منصوبے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سوشل ڈیموکریٹس کو چاہیے کہ وہ سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والی وزیر دفاع ارزولا فان ڈیئر لائن کی بطور یورپی کمیشن کے صدر نامزدگی کی حمایت کریں۔