قومی سلامتی کے نام پر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، خالد شیخ محمد
18 اکتوبر 2012خالد شیخ محمد نے بدھ کے دن گوانتانامو کے ملٹری ٹریبییونل کے سامنے امریکا مخالف خیالات کا اظہار کیا ہے۔ گوانتا نامو بے کے مشہور زمانہ امریکی حراستی کیمپ میں خالد شیخ محمد اور اس کے چار ساتھیوں کے خلاف مقدمے کی ابتدائی کارروائی پیر کو شروع ہوئی تھی، جو ہفتہ بھر جاری رہے گی۔ اس کارروائی کے تیسرے دن فوجی ٹریبیونل کے جج کرنل جیمزپوہل نےخالد شیخ محمد کو کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اسے دوبارہ ذاتی تبصروں کے لیے موقع نہیں ملےگا۔
کویت میں پیدا ہونے والے پاکستانی شہری خالد شیخ محمد نے اس کارروائی کے دوران کہا ، ''کوئی بھی آمر ، قومی سلامتی کے اپنے معانی گھڑ سکتا ہے۔''اس نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کے نام پرقتل کیا جا سکتا ہے، اذیت پہنچائی جا سکتی اور بچوں کو حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے۔
اس تقریر کے دوران خالد شیخ محمد انتہائی پر سکون معلوم ہو رہا تھا۔اس نے یہ تمام گفتگو عربی زبان میں کی ، جسے مترجم انگریزی میں بیان کر رہا تھا اور جب تک مترجم ترجمہ نہ کر لیتا وہ آگے نہ بڑھتا۔ امریکا سے فارغ التحصیل خالد شیخ محمد نے اس دوران چند مواقع پر مترجم کی تصحیح بھی کی۔
خالد شیخ محمد 2002ء سے لے کر 2006ء تک گوانتا نامو بے کے جیل خانے میں قید رہا۔ واشنگٹن حکومت تسلیم کرتی ہے کہ اس دوران اسے 183 مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ خالد شیخ محمدپر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ نائن الیون حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا، جن کے نتیجے میں دو ہزار 976 افراد مارے گئے تھے۔ اس کے دیگر چار ساتھیوں پر دہشت گردی کے لیے مالی اور انتظامی مددفراہم کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے بعد اسے سمندر برد کرنے پربالواسطہ تبصرہ کرتے ہوئے خالد شیخ محمد نے کہاکہ امریکی صدر قومی سلامتی کے نام پر کسی کو بھی سمندر برد کر سکتا ہے اور اسی طرح وہ ملکی سلامتی کے لیے کسی کے قتل کو قانون کا درجہ بھی دےسکتا ہے۔
اس' پری ٹرائل' کارروائی کا مقصد خالد اور اس کے چار ساتھیوں کے خلاف باقاعدہ مقدمہ شروع کرنے کی تیاری ہے۔ اس ابتدائی کارروائی کے دوران پانچوں ملزم اپنی قید کے دوران پیش آنے والےواقعات پر تبصرہ نہیں کر سکتے کیونکہ بقول ملٹری ٹریبیونل ،اس طرح ایسی خفیہ معلومات کے منظر عام پر آنے کے امکانات ہو سکتے ہیں، جو قومی سلامتی کی وجہ سے خفیہ رکھی گئی ہیں۔ اس کارروائی کے دوران ان ملزمان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ شروع کرنے کے حوالے سے اہم معاملات طے کیے جائیں گے۔توقع کی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف باقاعدہ مقدمے کے آغاز میں مزید ایک برس لگ جائے گا۔
( ab /ah (Reuters, AFP