1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل: شق 35 کیوں حذف کی گئی؟

3 دسمبر 2025

قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کی شق 35 کیا تھی اور اسے کیوں حذف کرنا پڑا؟ کیا یہ کمیشن محض ایک رسمی اقدام ثابت ہو گا یا واقعی پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی عملی فرق بھی ڈال سکے گا؟

پاکستان پارلیمان
 انسانی حقوق کے کارکنان قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کو ملکی تاریخی میں ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل 2025 منظور کر لیا گیا ہے، جس کا مقصد پاکستان میں اقلیتی برادریوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک قومی ادارے کا قیام ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کو ملکی تاریخی میں ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔

قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کا پس منظر

انسانی حقوق کے کارکن اور مرکز برائے سماجی انصاف کے بانی ڈائریکٹر پیٹر جیکب ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے اس بل کے پس منظر اور ضرورت کی وضاحت کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ”گزشتہ پینتیس برس سے مختلف حکومتیں دعوے کرتی آئی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن کام کر رہا ہے۔ اگر ایسا کوئی کمیشن تھا بھی تو اس کے پاس نہ تو کوئی قانونی حیثیت تھی اور نہ ہی اختیارات۔ ہم کئی دہائیوں سے ایسے کمیشن کی ضرورت پر زور دیتے رہے، جسے قانونی تحفظ اور وسیع اختیارات حاصل ہوں۔"

پیٹر جیکب کے مطابق، ”ایسے کمیشن کے قیام کے لیے پہلی اہم پیش رفت سپریم کورٹ کا سن 2014 میں آنے والا فیصلہ تھا۔ ستمبر سن 2013 میں پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں سو سے زائد مسیحی برادری کے افراد کی ہلاکت کے واقعات کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک کمیشن قائم کرے۔"

ایچ آر سی پی کے چئیرمین اسد بٹ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد حکومتوں نے کوشش کی مگر واضح اور مؤثر قانون سازی نہ کر سکیں۔ یہ بل اس لحاظ سے اہم پیش رفت کہ پارلیمان سے پاس ہوا اور کمیشن کے قیام کا عملی راستہ ہموار ہو گیا ہے۔"

کمیشن کے اختیارات کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرے گا؟

قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کے نتیجے میں قائم ہونے والی کونسل اٹھارہ اراکین پر مشتمل ہو گی، جو اقلیتوں کو دی گئی آئینی ضمانتوں اور حقوق کے تحفظ سے متعلق اقدامات کا جائزہ لے گی۔ یہ کونسل ایسے اقدامات پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے، حکومتی پالیسیوں اور قوانین کا تنقیدی جائزہ لینے اور ضروری ترامیم یا سفارشات حکومت کو بھیجنے کے وسیع اختیارات کی حامل ہو گی۔

قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کا مقصد پاکستان میں اقلیتی برادریوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک قومی ادارے کا قیام ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

کمیشن کو یہ حق ہوگا کہ وہ خلاف ورزی کے واقعات پر ازخود نوٹس لے یا کسی متاثرہ شخص یا اس کے نمائندے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر تحقیقات کرے۔ یہ اختیار سرکاری، نجی یا کسی بھی ادارے یا اتھارٹی کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔

 بل میں سیکشن پینتیس کیا تھا اور اسے کیوں حذف کرنا پڑا؟

پارلیمنٹ کے اجلاس میں بل پیش کرنے کے بعد شق پینتیس پر شدید بحث ہوئی، جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مخالفت نمایاں رہی اور پاکستان تحریک انصاف نے جمعیت کے موقف کی حمایت کی۔

 بل کے سیکشن پینتیس کے متن کے مطابق، ”اس ایکٹ کی دفعات کو دیگر تمام موجودہ قوانین پر فوقیت حاصل ہو گی، چاہے کہیں بھی کوئی متضاد قانون موجود ہو۔"

شق پینتیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ اس شق میں یہ بیان کیا گیا یہ قانون 'اوور رائیڈنگ ایفیکٹ‘ رکھے گا، یعنی چونکہ یہ حالیہ قانون ہے، اس لیے منظور ہونے کے بعد یہ بل سابقہ تمام قوانین پر فوقیت رکھے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا، ”بل کی شق پینتیس کو حذف کر دیا جائے۔ پھر ہمیں بھی اس پہ کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ کسی بھی صورت ایسی قانون سازی ہو جس سے قادیانی فتنے کو ہوا ملے۔"

اس قانونی نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے آئینی ماہر آصف محمود ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”کمیشن 'اقلیتوں کے حقوق‘ کے نام پر ایسی سفارش یا رپورٹ جاری کر سکتا تھا، جو چوہتر کے متفقہ آئین کی تشریح یا روح کے خلاف ہو۔ چونکہ سیکشن پینتیس کمیشن کو دیگر قوانین پر فوقیت دیتا تھا، اس لیے کمیشن کی رائے حتمی سمجھی جاتی، چاہے وہ آئین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ مذہبی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی۔"

ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق کامران مرتضیٰ نے شق پینتیس کو ختم کرنے کی ترمیم پیش کی، جو اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لی گئی۔ اعظم نذیر تارڑ نے اس موقع پر وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ ہم شق پینتیس کو ختم کر رہے ہیں تاکہ خدشات دور کیے جا سکیں۔"

اس پر تبصرہ کرتے ہوئےجماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود ڈی ڈبلیو اردو سے کہتے ہیں، ”ہم اس کمیشن کا حصہ بننے کو تیار ہی نہیں تھے اس لیے ہماری وجہ سے کسی کو تشویش ہوئی تو بلاجواز ہوئی۔ تکلیف کی بات وزیر قانون کے الفاظ تھے جنہوں نے 'فتنہ قادیان‘ جیسے نفرت انگیز الفاظ استعمال کیے اور ان کی تقریر پوری قوم ٹی وی چینلز کے ذریعے دیکھ رہی تھی۔

کیا نیشنل کمیشن فار مائنارٹیز رائٹس اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کر سکے گا؟

ایچ آر سی پی کے چئیرمین اسد بٹ سمجھتے ہیں کہ یہ غیر معمولی ہیش رفت ہے، جس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”کسی کمیشن کو آئینی تحفظ حاصل ہونا، اس کے لیے طریقہ کار اور سفارشات مرتب ہونا پہلا قدم ہوتا ہے اور یہی سب سے مشکل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب معاملات بہتری کی طرف ہی بڑھیں گے۔"

پیٹر جیکب کہتے ہیں، ”اس وقت کسی بھی قسم کی تنقیدی بات حکومت اور پارلیمان کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہو گی۔ پاکستان کے موجودہ سماجی منظر نامے میں یہ اہم اور مثبت پیش رفت ہے جس سے امیدیں وابستہ ہیں۔"

سندھ سے ہندو برادری کے متحرک کارکن ڈاکٹر وسنت کمار عرشی ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ہمارا ہمیشہ سے یہ شکوہ تھا کہ ہماری برادری کی نمائندگی چند مخصوص برہمن کرتے ہیں، جنہیں ہمارے مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ نئے کمیشن کے ممبران میں دلت کو شامل کرنا ہی ایسا خوش آئند قدم ہے، جس نے ہمارے حوصلے اور امیدیں بڑھا دی ہیں۔ یہ کمیشن اقلیتوں کے حقوق کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔"

گرپال سنگھ نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں تاریخ رقم کر دی!

03:33

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں