فرانسیسی حکام نے دائیں بازو کے طبقے کی جانب سے شدید تنقید کے بعد پیرس میں واقع آرک ڈے ٹریومپف نامی معروف یادگاری مقام سے یورپی یونین کا پرچم ہٹا دیا ہے۔
تصویر: Christophe Ena/AP/dpa/picture alliance
اشتہار
پیرس کے مرکز میں آرک ڈے ٹریومپف پر عارضی طور پر یورپی یونین کا پرچم نصب کیا گیا تھا۔ دائیں بازو کی جانب سے اس پرچم کی تنصیب پر صدر امانویل ماکروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ماکروں فرانسیسی شناخت 'مٹا‘ رہے ہیں۔
نئے سال کے آغاز پر فرانس کے لیے جنگوں میں اپنی جانیں کھو دینے والوں کی یاد سے منسوب آرک ڈے ٹریومپف پر یورپی یونین کا ایک بہت بڑا پرچم عارضی طور پر نصب کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ اگلے چھ ماہ کے لیے یورپی کونسل کی سربراہی فرانس کو ملنا تھی، جو یکم جنوری سے فرانس کے پاس آئی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ آرک کے یادگاری مقام پر پرچم کی تنصیب کے علاوہ کئی روز سے ایفل ٹاور اور پنتھون کو بھی یورپی یونین کے پرچم کے نیلے رنگ کی روشنی سے سجایا جا رہا تھا۔ تاہم ماکروں کے دائیں بازو کے حریفوں کا کہنا ہے کہ فرانس کے سہہ رنگی پرچم کی جگہ یورپی یونین کر پرچم لہرا کر ماکروں فرانسیسی شناخت، ثقافت اور فرانس کے لیے جنگوں میں مرنے والوں کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یورپی کونسل کی ششماہی سربراہی ملنے پر فرانس کے مشہور ایفل ٹاور کو یورپی پرچم کے رنگوں کی روشنی سے سجایا گیا۔تصویر: Alain Jocard/AFP
یہ بات اہم ہے کہ فرانس میں رواں برس موسم بہار میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اسی تناظر میں وہاں سیاسی گہماگہمی جاری ہے۔ صدارتی انتخابات میں صدر ماکروں کے مدمقابل قدامت پسند رہنما والیری پیکریس نے اسی تناظر میں کہا، ''یورپ کی سربراہی، ٹھیک ہے، مگر فرانسیسی شناخت مٹانا غلط ہے۔''
پیکرس، جنہیں آئندہ انتخابات میں ماکروں کی اہم ترین حریف کہا جا رہا ہے، نے مزید کہا، ''فرانسیسی پرچم کو دوبارہ لگایا جائے۔ ہم جنگوں میں اس (پرچم) کے لیے اپنا خون دینے والوں کے مقروض ہیں۔‘‘
دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کی رہنما اور سابقہ انتخابات میں صدر ماکروں کی اہم ترین حریف مارین لے پین نے یورپی یونین کے پرچم کو ہٹانے کے مطالبے کے ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ انتظامی امور سے متعلق اعلیٰ ترین فرانسیسی عدالت سے رجوع کریں گی۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
یورپی پرچم ہٹائے جانے کے بعد ان کا کہنا تھا، ''یہ حب الوطنی کی فتح ہے۔ بڑی پیش قدمی نے ماکروں کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔‘‘
دوسری جانب صدارتی دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کے پرچم کو ہٹایا جانا پہلے سے طے شدہ تھا۔ صدارتی دفتر کے مطابق مختلف مقامات پر کئی روز سے نیلی روشنیوں سے چراغاں کے برخلاف یادگاری مقام پر یورپی پرچم کی تنصیب فقط دو روز کے لیے طے تھی۔