1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’قيديوں کے تبادلے پر امريکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات ہوئے،‘ طالبان

عاصم سليم20 فروری 2014

طالبان کے ايک رکن نے دعوی کيا ہے کہ امريکی حراستی مرکز گوانتانامو بے میں مقید پانچ سينئر طالبان ارکان کے بدلے مغوی امریکی سارجنٹ بووی بیرگ ڈہل کی رہائی کے بارے ميں واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ بات چیت ہو چکی ہے۔

تصویر: picture alliance/AP Photo

طالبان اہلکار کے مطابق قيديوں کے تبادلے پر يہ بات چيت مشرق وسطی کے کسی ملک ميں پچھلے دو ماہ کے دوران کسی وقت ہوئی۔ امريکا اور طالبان کے درميان قيديوں کے تبادلے کا معاملہ پہلی مرتبہ جون 2013ء ميں زير غور آيا تھا تاہم اُس وقت قطر ميں طالبان کے رابطہ دفتر کے قيام کے بعد سامنے آنے والے تنازعے کے سبب يہ معاملہ دب گيا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اگر اس سلسلے ميں مذاکرات واقعی ہوئے، تو يہ قيديوں کے تبادلے کے سلسلے ميں ہونے والی پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔

اس بارے ميں بات کرتے ہوئے ايک امريکی اہلکار کا کہنا ہے کہ قيديوں کا تبادلہ زير غور ہے تاہم اِس اہلکار نے اِس بات کی تصديق نہيں کی کہ آيا اِس سلسلے ميں باقاعدہ مذاکرات يا بات چيت ہو چکی ہے۔ امريکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان ميری ہارف نے اِس بارے ميں بات کرتے ہوئے بدھ کے روز کہا، ’’ہم طالبان کے ساتھ فعال مذاکرات کا حصہ نہيں ہيں۔ ظاہر ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل کسی وقت بحال ہو جاتا ہے، تو ہم سارجنٹ بووی بیرگ ڈہل کی بحفاظت واپسی کی بات کرنا چاہيں گے۔‘‘

حامد کرزئی کا مطالبہ ہے کہ طالبان قيديوں کو رہا کر کے افغانستان بھيج ديا جائےتصویر: Johannes Eisele/AFP/Getty Images

دريں اثناء افغان دارالحکومت کابل ميں ايک سينئر افغان اہلکار نے بتايا کہ امريکی اہلکار حال ہی ميں کرزئی انتظاميہ کے ساتھ رابطے ميں تھے، جس کا مقصد بووی بیرگ ڈہل سے متعلق ممکنہ تبادلہ ہی تھا۔

ستائيس سالہ سارجنٹ بووی بیرگ ڈہل کو تيس جون 2009ء کو اغواء کيا گيا تھا۔ ايسا مانا جاتا ہے کہ اُنہيں افغانستان اور پاکستان کے درميان سرحدی علاقے ميں رکھا گيا ہے۔ بیرگ ڈہل افغانستان ميں جاری تيرہ سالہ کے دوران قيد کيے جانے والے واحد امريکی فوجی ہيں۔ اُنہيں آخری مرتبہ گزشتہ دسمبر ميں جاری کردہ اُن کے ايک ويڈيو پيغام ميں ديکھا گيا تھا۔ ويڈيو سے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ طالبان کی حراست میں بیرگ ڈہل زندہ ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق قيديوں کے تبادلے کے اِس معاملے ميں طالبان کے جو پانچ قيدی زير غور ہيں، اُن ميں محمد فضل، عبدالحق واثق، ملا نور اللہ نوری، خيراللہ خير خواہ اور محمد نبی شامل ہيں۔ اِن پانچوں قيديوں کے نام اُس فہرست ميں شامل نہيں ہيں، جِسے رہائی کے ليے ترتيب ديا گيا ہے بشرطيہ کہ اُن کا آبائی ملک اُن کی سلامتی کی يقين دہائی کرائے۔

افغان صدر حامد کرزئی کا مطالبہ ہے کہ اِن قيديوں کو رہا کر کے افغانستان بھيج ديا جائے جبکہ طالبان يہ کہتے ہوئے کہ يہ قيدی امن مذاکرات ميں مدد فراہم کر سکتے ہيں، اُن کی قطر ميں رہائی چاہتے ہيں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں