قيد سے بچانے کے ليے سابق پولش فوجی پالتو چيتا لے کر فرار
12 جولائی 2020
پولينڈ ميں جانوروں سے محبت کے ايک عجيب و غريب واقعے ميں ايک سابق فوجی اپنے پالتو چيتے کی چڑيا گھر حوالگی سے بچنے کے ليے اسے لے کر جنگل کی طرف فرار ہو گيا ہے۔ حکام نے دونوں کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے۔
اشتہار
پولينڈ ميں پوليس اہلکار ايک سابق فوجی کی تلاش ميں ہيں۔ متعلقہ سابق فوجی اپنے پالتو چيتے کے ساتھ ايک جنگل ميں فرار ہو گيا ہے۔ دو سو سے زائد پوليس اہلکار پچھلے تين دن سے مغربی پولينڈ کے علاقے ميں ان دونوں کی تلاش ميں ہيں مگر فی الحال کوئی نتيجہ نہيں نکلا۔
پون زان نامی چڑيا گھر کی سربراہ ايوا زگرابزنکا کے مطابق، ''يہ کوئی کھلونہ نہيں۔ پوما يا چيتا دنيا کے خطرناک ترين جانوروں ميں شامل ہے اور اس سے لوگوں کو جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پولينڈ ميں خطرناک جانوروں کو گھر پر پالتو جانور کے طور پر رکھنا ممنوع ہے۔ اسی باعث متعلقہ سابق فوجی کو عدالت نے حال ہی ميں يہ حکم ديا تھا کہ وہ اپنے چيتے کو مقامی چڑيا گھر کے حوالے کر دے۔
مقامی ميڈيا پر نشر کردہ اطلاعات کے مطابق عدالتی فيصلے پر عمل در آمد کے ليے جب مقامی چڑيا گھر سے وابستہ اہلکار اس کے گھر پر پہنچے، تو متعلقہ شخص انہيں چاقو سے ڈرا دھمکا کر اپنے چيتے کے ساتھ فرار ہو گيا۔ ايک مقامی اخبار ميں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق مذکورہ سابق فوجی نے چھ سال قبل پوما کا بچہ چيک جمہوريہ ميں کہيں سے خريدا تھا اور وہ گھر پر اسے پال رہا تھا۔
پوليس نے فوجی کی تلاش کے بارے ميں تفصيلات فراہم کرنے سے انکار کر ديا۔ پوليس ترجمان نے بس اتنا بتايا کہ افغانستان ميں جنگ ميں حصہ لينے والے سابق پولش فوجی اور اس کے پالتو چيتے فی الحال دونوں کی تلاش جاری ہے۔
دوسری جانب چند حلقوں ميں سابق فوجی کے اس عمل کو سراہا بھی جا رہا ہے۔ جنوبی ديہات مائيسلوس کے ميئر داريوس ووچووچ نے اپنے فيس بک پر مندرجہ ذيل پيغام پوسٹ کيا، ''اپنے پالتو جانور سے محبت کی وجہ سے اس نے يہ بے لوث قدم اٹھايا۔ اس نے جنگل ميں پناہ لے رکھی ہے۔‘‘ ووچووچ نے درخواست کی کہ شايد اس معاملے کو کوئی زيادہ انسانی بنيادوں پر رحم کے ساتھ ديکھ سکے۔ نہوں نے فوجی اور پوما کی تصوير بھی شيئر کی، جن کی شناخت بالترتيب کامل ايس اور نوبيا کے طور پر ہوئی ہے۔
جانوروں کی سننے کی غیرمعمولی صلاحتیں
ارتقا کے سفر میں انسانوں نے اپنی سماعت کی حسیات کھو دیں۔ ہم ہاتھیوں کی طرح نچلے تعدد کی آواز نہیں سن سکتے اور چمگادڑوں کی طرح کی اونچی فریکوئنسی کی سماعت سے عاری ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی سماعت کو بہتر بنانا ضرور سیکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
خرگوش اور کانوں کا گھماؤ
خرگوش اپنے کانوں کو 270 درجے تک گھما کر سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کانوں کی حرکت اسے شکار بننے سے بچاتی ہے، مگر خرگوش کے کان رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کھڑے کان بتاتے ہیں کہ وہ توجہ سے سن رہے ہیں اور جب ایک کان کھڑا ہو اور ایک بیٹھا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ خرگوش توجہ دیے بغیر سن رہا ہے۔ دونوں کان پشت پر جڑی حالت میں گرے ہوں، تو سکون کی علامت ہے۔ اسی حالت میں علیحدہ کان خوف کا اشارہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
بلی اور کتا نہایت متوجہ ہیں
کتے انسان سے زیادہ بلند تعدد کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کا کتا اس وقت بھی ردعمل دکھا سکتا ہے، جب آپ کو وہاں کچھ نظر نہ آئے۔ کتے اپنے مالک اور اجنبیوں کے قدموں کی چاپ میں فرق تک کر سکتے ہیں۔ بلیاں سماعت میں اس سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ کتوں کے پاس کانوں کے 18 پٹھے ہوتے ہیں جب کہ بلیوں میں یہ تعداد 30 ہے۔ بلیاں اپنے کانوں کو 180 درجے گھما بھی سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Faber
چمگادڑوں کا سننے کے لیے الٹراسانک موجوں کا استعمال
چمگادڑ گمک کے ذریعے رات کے دوران پرواز کا راستہ طے کرتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے الٹراسونک یا بالائے صوت موجیں خارج کرتی ہیں، جو پلٹ کر ان تک آتی ہیں۔ اس ذریعے سے چمگادڑ آواز کی موجوں سے کسی شے کے حجم اور مقام کا تعین کرتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں بھی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ چمگادڑوں کے پاس کانوں کے 20 پٹھے ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ گمک کو سننے کے لیے اپنے کانوں کی جہت تبدیل کر لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
عالم حیوانات کا بہترین سامع مگر کان نہیں ہیں
عالم حیوانات میں سب سے بہترین سماعت ویکس موتھ ہے، جسے ارتقا نے چمگادڑوں سے بچنا سکھا دیا ہے۔ ان کے کان نہیں ہیں، مگر ان کی سننے کی صلاحیت انتہائی حساس ہے۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں ایک سو پچاس گنا بہتر سن سکتے ہیں جب کہ چمگادڑوں کے مقابلے میں 100 ہرٹز زیادہ تعدد کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
بھنورے، جھینگر اور کیڑے اپنے شکاریوں کی جانچ کے لیے الٹراسونک موجوں کو سماعت کرتے ہیں۔ شکاریوں سے فاصلہ بنانے کے لیے یہ آڑا ترچھا یا دائروں میں اڑنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں۔ بعض جھینگر اور بھنورے مخصوص آواز پیدا کر کے اپنے شکاری کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Schultz
وہیل، چلتی پھرتی آبدوزیں
آب دوزوں کے سفر کے لیے وہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جو چمگادڑ یا وہیل مچھلیاں گھپ اندھیرے میں سفر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اندھیرے میں وہیل مچھلیاں آواز کی موجیں پیدا کر کے اور گمک سن کے اپنی خوراک بھی تلاش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیاں آواز کے ذریعے اپنے آس پاس کے ماحول کا سہہ جہتی خاکہ جان لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Poelzer
ڈولفن جبڑوں سے سنتی ہیں
ڈولفن کے کان ہوتے ہیں، مگر وہ سمندر میں سفر کے لیے چمگادڑوں کی طرز کا نظام استعمال کرتی ہیں۔ ان کی جبیں سے صوتی لہریں نکلتی ہیں جب کہ پلٹ کر آنے والی ان لہروں کو ڈولفن کے دانت اور جبڑے وصول کرتے ہیں۔ سننے کے لیے کبھی کبھی کان درکار نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Peolzer
ہاتھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ محسوس کر سکتے ہیں
اپنے بڑے بڑے کانوں کے ذریعے ہاتھی بارش سے قبل جمع ہونے والے بادلوں کی آواز تک محسوس کر لیتے ہیں۔ ہاتھی انفرا صوتی موجوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پیروں کی حرکت کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والی ارتعاش تک کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Reichelt
الو جیسے فطرت کا نگران کیمرہ
الوؤں کے پاس فقط رات میں دیکھنے یا اپنے سر کو تین سو ساٹھ درجے گھمانے ہی کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ان کی سماعت بھی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ان کے کان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اڑتے ہوئے یہ ایک کان سے اوپر سے آنے والے صوتی موجیں محسوس کر سکتے ہیں اور ایک کان سے نیچے سے آتی آوازیں۔ اس پر ان کی رات میں دیکھ لینے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ان کا شکار بچ نہیں سکتا۔
تصویر: DW
نابینا افراد چمگادڑوں کی طرح سننے کی مشق کر سکتے ہیں
بعض نابینا افراد گمک کو محسوس کر کے اپنے ماحول کو جانچ سکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے منہ سے آواز نکال کر اس کی بازگشت سن لیتے ہیں جب کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط گمک سن کر اپنے ماحول کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔