قید کی سزا، کیا نواز شریف کو اس سے فائدہ پہنچے گا؟
8 جولائی 2018عدالتی فیصلے کے تحت نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی اور پھر انہیں اپنی سیاسی جماعت کی قیادت سے بھی ایک اور عدالتی فیصلے نے فارغ کر دیا۔ اب ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کے بعد وہ عمر بھر کے لیے عملی سیاست کے قابل نہیں رہے۔ لیکن ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں اُن کی سیاسی پارٹی کو خاص طور پر ہمدردی کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔
عدالتی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی سیاست میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو بدستور ایک بڑی شخصیت خیال کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایسے عوامل سے مسلم لیگ منظم انتخابی مہم سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ خیال رہے کہ نواز شریف کو ابھی دو مزید کرپشن ریفرنسز کا سامنا ہے۔
پاکستان کے سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا خیال ہے کہ انتخابی عمل پر متاثر ہونے کا زیادہ تعلق نواز شریف کی واپسی پر منحصر ہے۔ اس وقت نواز شریف لندن میں اپنی علیل اہلیہ کی تیمارداری میں مصروف ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد سابق پاکستانی وزیراعظم نے پاکستان واپس جانے کا عزم ظاہر ضرور کیا ہے۔ دوسری جانب وہ پاکستان پہنچتے ہی گرفتار کر کے جیل پہنچا دیے جائیں گے اور وہیں سے وہ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکیں گے۔
زاہد حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی جلدی نواز شریف لوٹیں گے، اتنا ہی زیادہ انہیں ہمدردی کا ووٹ حاصل ہو گا اور لندن میں اُن کا قیام طویل ہونے کی صورت میں عوام کے اندر یہ ہمدردانہ جذبات بتدریج کم ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اُن کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر اور اُن کے بھائی شہباز شریف ابھی تک انتخابی مہم میں جان پیدا کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی طرف قدرے مصالحانہ اور صلح جوئی والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب نواز شریف کے خلاف دیے جانے والے عدالتی فیصلے اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ فوج عدلیہ کے ساتھ رابطے رکھتے ہوئے عدالت ہی کے ہاتھوں انہیں سیاسی میدان سے دور رکھنے کی کوشش میں ہے۔ حالیہ کچھ ایام کے دوران نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف کا بیانیہ واضح طور پر ’’فوجی ایسٹیبلشمنٹ‘‘ کے خلاف رہا ہے۔