پاکستان زرعی ملک ہونے کے بنا پر اناج ، سبزی اور پھلوں کی پیداوار میں ہمیشہ سے خود کفیل ہوا کرتا تھا۔ آج بھی غیر ملکی یہاں تھوک کے حساب سے سبزیوں اور فروٹ کو دیکھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے ملک میں تربوز ، خربوزہ کی ایک ایک ایک کاش کو پلاسٹک ریپنگ میں دکانوں پر سجا ہوا دیکھا ہو، وہ بھلا کہاں یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ایسے فروٹ انبار کی صورت میں بھی برائے فروخت ہو سکتے ہیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان کی زمین زرخیز ہے بالخصوص پانچ دریاؤں پر مشتمل صوبہ پنجاب زرخیزی میں اپنی مثال آپ ہے، اسی لئے پاکستان میں اگنے والی سبزیوں اور پھلوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ملتان کا آم اپنے ذائقہ اور مٹھاس کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے۔
دو سال قبل ملتان کے علاقے بوسن روڈ اور شجاع آباد روڈ پر واقع بیس سے پچیس ہزار آم کے درخت کاٹ کر ڈی ایچ اے ملتان کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔ لہذا پچھلے سال آم مارکیٹ سے نسبتاً جلدی غائب ہو گئے اور ایک تشنگی سی چھوڑ گئے۔
پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی
کسانوں نے آم کے باغات ہاؤسنگ سوسائٹی کے لئے اس بنا پر بیچ ڈالے کہ یہ قیمتی باغات ان کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے تھے اور نا ہی حکومتی سطح پر کسانوں کو کوئی اس کا متبادل ذریعہ آمدنی مہیا کیا گیا۔
پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار نے چند سالوں میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہےکہ اس ملک کی تمام زمین پر سوائے بلند و بالا بلڈنگ، ریسٹورینٹ، شاپنگ مالز اور ہاوسنگ سوسائٹیز کے کچھ باقی نہیں رہنے دیا جائے گا۔
معاملہ چاہے بہاولپور کی ریلوے کی قیمتی اراضی کو کوڑیوں کے مول بیچنے کا ہو یا اوکاڑہ ملٹری فارمز پر مطلق العنان ادارے کے قبضے کا، کراچی میں تمر (مینگروز)کے جنگلات کا صفایا کرنے کا ہو یا لاہور کی زرعی زمین سے مقامی باشندوں کو زبردستی ان کی ملکیت سے بیدخل کرنا ہو۔ ایسے ہر اقدام کے پیچھے کسی نا کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کا نام جڑا ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی قیمتی اراضیوں کو بھی مقامی لوگوں سے زبردستی کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر انہیں پہلے برانڈ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر اشرافیہ کے درمیان پرتعیش اور محل نما مکانات بنانے کی ایک لمبی ریس لگ جاتی ہے۔ ان ہاؤسنگ سوسائٹی کی ابتدا ڈی ایچ اے سے ہوئی اور پھر بحریہ ٹاؤن نے اسے مزید بڑھاوا دیا۔
آج پاکستان کے تمام صوبوں کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور بحریہ ٹاؤن پورےطمطراق کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ ہاوسنگ سوسائٹیوں کا کاروبار ملک کے گرد و پیش میں جال کی طرح پھیل چکا ہے، جس کی وجہ سے اب ذرخیز زرعی اراضی پر کھیت کھلیان کی جگہ سیمنٹ گارے کے پختہ مکانوں نے لے لی ہے۔
ملتان میں جاری ’قتل آم‘ اور ایک بوڑھے باپ کے آنسو
ان ہاوسنگ سوسائٹیز کے مالکان نے ناصرف مزارعوں، کسانوں کے ساتھ ناانصافیاں کیں ہیں بلکہ ملک کی معیشت کوبھی نقصان پہچانے کا مؤجب بنی ہیں۔ کراچی کے تمر کے جنگلات کا تقریباً صفایا کیا جا چکا ہے اور ان کی جگہ ڈی ایچ اے کے نئے فیز بنائے جا چکے ہیں۔
ان جنگلات کے خاتمے سے مچھلی جھینگے کے افزائش نسل کو بری طرح نقصان پہنچا ہے جبکہ دوسری جانب ان سوسائٹیوں کا سارا فضلہ سمندر برد کرنے سے بھی آبی حیات خطرات سے دوچار ہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کی گندم چاول اور دیگر اجناس دنیا میں برآمد کئے جاتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ نا صرف ملکی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو چلے ہیں بلکہ پڑوسی ممالک سے درآمد کرنے کی نوبت آ گئی ہے۔
دوسری جانب گلوبل وارمنگ کی بنا پر پوری دنیا ہی میں موسمیاتی تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے ۔ حالیہ سیلاب نے ملک کے کونے کونے میں ایسی تباہی پھیلائی کہ ابھی تک اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان سیلاب کی تباہیوں کی ایک بڑی وجہ زرعی اور زرخیز زمینوں کا بتدریج ختم ہونا بھی ہے۔ زرعی زمین سیلابی پانی کو جذب کرنے اور درخت سیلابی ریلے کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہری سیلاب کی روک تھام ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں آبی قحط کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ زرخیز اراضیوں پر کنکریٹ کے فرش بچھائے جارہے ہیں۔
لیکن جس بے دردی سے ہزاروں ایکڑ پر پھیلے پورے پورے باغات کاٹے جا رہے ہیں، فصلیں تباہ کی جا رہی ہیں ، مستقل قریب میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور قحط سالی کے خطرات مزید بڑھ گئے ہے۔ دیگر کاروباری انڈسٹری لگانے سے ملک کی پیداواری صلاحیت بڑھتی ہے اور زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے جو ایک ملک کی معیشت کو مضبوط کرتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار پیداواری شعبہ نہیں، جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر اس کاروبار کے پھلنے پھولنے کے باوجود کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔
بے شک پاکستان میں عوام کے لئے گھروں کی تعمیرات ضروری ہیں لیکن ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسی سوسائٹیاں صرف امراء کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تعمیر کی جا رہی ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ غریب افراد کے لئے چھوٹے مکانات یا فلیٹس تعمیر کئے جائیں تاکہ بے گھر افراد کو گھر کی چھت میسر آئے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔