ایک جرمن خاتون اس وقت حادثے سے بال بال بچ گئی، جب اس کی جیکٹ کو آگ لگ گئی۔ ایسا کس طرح ہوا؟ پڑھیے اس رپورٹ میں۔
اشتہار
دریائے ایلب پر چہل قدمی کو جانے والی ایک جرمن خاتون نے وہاں کنارے سے قیمتی پتھر کے شبے میں سفید فاسفورس کا ایک ٹکڑا اٹھا لیا۔ اکتالیس سالہ اس خاتون کو لگا کہ غالباﹰ یہ قیمتی پتھر عنبر کا ٹکڑا ہے۔ اسے تب تک معلوم نہ ہوا کہ اس نے کوئی خطرناک چیز اٹھا لی ہے، جب تک اس کے کوٹ کے جیب میں موجود دھماکا خیز مواد فارسفورس کے اس ٹکڑے کا آگ نہ لگی۔
جب یہ حادثہ رونما ہوا، تو وہاں موجود لوگوں نے فوری طور پر فائر بریگیڈ کو بلوا لیا۔ اس واقعے کے بعد جرمن حکام نے دریائے ایلب کی سیر کو جانے والوں کے لیے خصوصی ہدایات جاری کر دی ہیں کہ اگر انہیں عنبر کی طرح کے کوئی پتھر نظر آئیں تو اسے فوری طور پر ہاتھوں سے مت اٹھائیں۔
اس خاتون نے ایک سینٹی میٹر لمبے سفید فارسفورس کے ٹکڑے کو اپنی کوٹ کی جیب میں تو ڈالا لیکن اس کی قسمت اچھی تھی کیونکہ جب اس کوٹ میں آگ لگی تو اس وقت اس نے اس جیکٹ کو پہنا نہیں ہوا تھا۔ دریائے ایلب کے کنارے پڑی، اس جیکٹ میں آتشزدگی کے بارے میں اسے وہاں موجود لوگوں نے باخبر کیا۔
جرمن شہر ویڈل میں فائر بریگیڈ اور متعلقہ عملے نے اس واقعے کے بعد وہاں دریائے ایلب کے کنارے کا مکمل معائنہ کیا لیکن ایسا مزید کوئی عنبر کی شکل کا کوئی ٹکڑا برآمد نہیں ہوا۔ سفید فارسفورس انتہائی خطرناک دھماکا خیز مواد ہے، جس سے جسم بری طرح جھلس سکتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی آگ یا کیمیکل ردعمل کو پانی سے بھی قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ سفید فاسفورس کا یہ ٹکڑا جب خشک ہوا تو اس میں کیمیائی ردعمل پیدا ہوا اور اسے آگ لگ گئی۔ پولیس کے مطابق سفید فاسفورس کا یہ ٹکڑا دراصل دوسری عالمی جنگ کے دوران کے کسی بم کا کوئی حصہ تھا۔ یہ امر بھی اہم کہ عالمی جنگ کے زمانے کے ایسے بم یا ان کے حصے اب بھی جرمنی کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوتے رہتے ہیں۔
جب جرمن شہر ڈریسڈن راکھ کا ڈھیر بنا تھا
ڈریسڈن جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک تھا لیکن پھر ٹھیک ستّر برس پہلے دوسری عالمی جنگ میں اس پر اتحادی افواج نے اتنی شدید بمباری کی کہ پچیس ہزار انسان زندہ جل گئے اور شہر راکھ اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Getty Images/Matthias Rietschel
بمباری، تباہی اور لوٹ مار
دوسری عالمی جنگ کے دوران تیرہ فروری 1945ء کو انگلینڈ سے 245 لنکاسٹر طیارے روانہ ہوئے، جن کا رُخ جرمن شہر ڈریسڈن کی جانب تھا۔ شب 9 بج کر 39 منٹ پر شہر میں سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی موت کا کھیل شروع ہو گیا اور صرف 23 منٹ میں اس پر برسائے گئے بموں نے شہر کے مرکزی حصے میں ایک سے دوسرے سرے تک آگ لگا دی۔ برطانوی اور امریکی طیاروں کی بمباری نے شہر کے پندرہ کلومیٹر علاقے کو ملیا میٹ کر ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رائل چیپل کھنڈر میں تبدیل
وسط فروری 1945ء میں ہونے والی اس بمباری میں ڈریسڈن کے رائل چیپل (گرجا گھر) کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ چھت اور گنبد منہدم ہو کر اندر جا گرے۔ یہ چرچ جرمن صوبے سیکسنی میں بننے والی بڑی کلیسائی عمارات میں سے ایک ہے۔ باقی جرمنی کی طرح یہاں بھی ملبہ ہٹانے کا کام بڑی حد تک خواتین نے انجام دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مارٹن لُوتھر بھی نہ بچ سکے
’چرچ آف آور لیڈی‘ کے عین سامنے ممتاز مصلح مارٹن لُوتھر کے لیے بنائی گئی یادگار واقع ہے۔ یہ یادگار بھی بمباری کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئی۔ مارٹن لُوتھر کا یہ مجسمہ نامور مجسمہ ساز آڈولف فان ڈونڈورف نے 1861ء میں تخلیق کیا تھا لیکن اسے نصب کہیں 1885ء میں کیا گیا۔ لُوتھر نے 1516ء اور 1517ء میں ڈریسڈن کے دورے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بے دریغ بمباری کی ایک نمایاں مثال
ڈریسڈن میں باروک طرزِ تعمیر کا شاہکار ’چرچ آف آور لیڈی‘ 1726ء اور 1743ء کے درمیان تعمیر ہوا۔ ستر سال پہلے کی بمباری سے اسے کافی نقصان پہنچا۔ 1993ء تک اِسے اسی حالت میں ’بے دریغ بمباری کی ایک یادگار‘ کے طور پر باقی رکھا گیا تاہم تب اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی چوٹی پر نصب سنہری صلیب برطانیہ کے ایک ایسے کاریگر نے تیار کی، جس کے والد نے پائلٹ کے طور پر اس شہر پر کی گئی بمباری میں حصہ لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
شہر کی نمایاں ترین علامت ایک نئی شان کے ساتھ
1994ء سے لے کر 2005ء تک ’چرچ آف آور لیڈی‘ کو دنیا بھر سے آنے والے عطیات کی مدد سے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس تعمیر پر مجموعی طور پر تقریباً 130 ملین یورو لاگت آئی۔ اکیانوے میٹر بلند یہ چرچ اور اس کے آس پاس باروک طرزِ تعمیر میں بنائی گئی رہائشی عمارات صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں سیاحوں کی توجہ کا ایک نیا مرکز بن چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
تباہی کے اثرات ڈھونڈے سے نہیں ملتے
آج کل سیاح ڈریسڈن کے مرکز میں واقع پیلس اسکوائر اور کیتھولک رائل چیپل کی سیر کرتے ہیں اور بحالی کے بعد نئی آن بان کے ساتھ کھڑی ان عمارات کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیکسنی بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کا صوبہ تھا تاہم پولینڈ کی بادشاہت کے تاج کا حقدار ہونے کے لیے آؤگسٹ ڈیئر شٹارکے نے کیتھولک عقیدہ اپنا لیا تھا اور اِسی لیے اُنہوں نے 1739ء اور 1754ء کے درمیان یہ کیتھولک عبادت گاہ بنوائی۔
تصویر: picture alliance/Johanna Hoelzl
نئی آن بان کے ساتھ
فروری 1945ء میں تباہ ہونے والی لُوتھر کی یادگار کی مرمت اور تجدید کا کام کہیں 1955ء میں عمل میں آیا۔ اس مجسمے کی بحالی کا عمل 2003ء اور 2004ء میں انجام پایا۔ تب تک یہ مجسمہ جنگ اور تباہی کی ایک یادگار کے طور پر ’چرچ آف آور لیڈی‘ کے سامنے پڑا رہا۔ آج کل یہ مجسمہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے اور شہر بھر کے نوجوان بھی اسی کے سائے میں ایک دوسرے سے ملتے اور یہاں اپنا وقت گزارتے ہیں۔
تصویر: imago/Chromorange
ایلبے کا فلورنس
آج کا ڈریسڈن ایک بار پھر جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے ایلبے اس کے بیچوں بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی باروک طرزِ تعمیر کی حامل عمارات کی وجہ سے ڈریسڈن کو ’ایلبے کا فلورنس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈریسڈن کی آبادی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یوں یہ جرمنی کے بارہ بڑے شہروں میں سے ایک گنا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Lander
2015ء میں 1945ء کی تباہی کا نظارہ
ڈریسڈن ہی میں مقیم ماہرِ تعمیرات یادگار عزیزی نے، جن کے والدین کا تعلق ایران سے ہے، گیس کی ایک بڑی سابقہ ٹینکی کے اندر دیواروں پر 1945ء کی تباہی کی تصاویر کچھ اس انداز سے آویزاں کی ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر انسان خود کو اُس سارے منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور انتہائی قریب سے دیکھتا ہے کہ کیسے ڈریسڈن شہر کا مرکز آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔