لاؤڈ اسپیکروں پر اذان، جرمنی میں مزید کئی مساجد کی درخواستیں
11 نومبر 2021
جرمن شہر کولون میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے سے متعلق دو سالہ ماڈل پروجیکٹ کے دوران ہی مزید کئی مسلم برادریوں کی طرف سے ہر جمعے کی نماز سے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت کے لیے باقاعدہ درخواستیں دے دی گئی ہیں۔
اشتہار
کولون شہر کی خاتون میئرہینریئٹے ریکر نے، جو کسی بھی سیاسی جماعت کی رکن نہیں ہیں، گزشتہ ماہ کے آغاز سے دو سالہ مدت کے ایک ایسے ماڈل پروجیکٹ کی منظوری دے دی تھی، جس کے تحت مقامی مسلمانوں کی شہر کے ایہرن فَیلڈ نامی علاقے میں واقع مرکزی مسجد میں ہر جمعے کی نماز سے قبل لاؤڈ اسپیکر پر اذان دی جا سکتی ہے۔
یہ اجازت جس مسجد میں لاؤڈ اسپیکروں پر باقاعدہ اذان کے لیے دی گئی تھی، اس کا انتظام جرمنی میں کئی ملین ترک نژاد مسلمانوں کی مساجد کی نمائندہ مرکزی تنظیم دیتیب (Ditib) چلاتی ہے۔
دس دیگر مسلم برادریوں کی طرف سے بھی درخواستیں
کولون شہر کی انتظامیہ کی ایک ترجمان نے اس بارے میں جمعرات گیارہ نومبر کے روز نیوز ایجنسی کے این اے کو بتایا کہ تقریباﹰ چھ ہفتے قبل اس ماڈل پروجیکٹ کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مزید دس مقامی مسلم تنظیموں کی طرف سے بھی یہ درخواست دی جا چکی ہے کہ انہیں بھی مساجد میں جمعے کے روز لاؤڈ اسپیکروں پر نماز جمعہ کی اذان دینے کی باقاعدہ اجازت دی جائے۔
قبل ازیں کولون سے شائع ہونے والے اخبار 'کُلنر شٹڈ اَنسائگر‘ نے بھی اپنی آج کی اشاعت میں کولون شہر کی انتظامیہ کی طرف سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایسی اولین درخواستوں کی تصدیق کر دی تھی۔
اخبار کے مطابق ترک نژاد جرمن مسلمانوں کی مساجد کی مرکزی تنظیم دیتیب نے کہا ہے کہ وہ کولون کے ایہرن فَیلڈ نامی علاقے میں قائم مرکزی مسجد کے علاوہ شہر میں پانچ اور مقامی مساجد کا انتظام بھی چلاتی ہے۔ تاہم جن دس دیگر مساجد نے اب مؤذن کی طرف سے جمعہ کی سہ پہر لاؤڈ اسپیکر پر باقاعدہ اذان کی اجازت کی درخواستیں دی ہیں، وہ دیتیب کی مساجد نہیں ہیں۔
لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی شرائط
جرمنی میں مسلمان اپنی مساجد میں عام طور پر لاؤڈ اسپیکروں پر اس طرح اذان نہیں دے سکتے کہ وہ دور دور تک سنائی دیتی ہو۔ ایسا صرف ان چھوٹے لاؤڈ اسپیکروں کی مدد سے ہی کیا جا سکتا ہے، جن کی آواز مساجد کے اندر اور ان سے ملحقہ کمیونٹی مراکز تک میں سنی جا سکتی ہو۔
کولون کی بلدیاتی انتظامیہ نے جس ماڈل پروجیکٹ کی منظوری یکم اکتوبر سے دی تھی، اس کے تحت شہر کی چند مساجد میں جمعے کی نماز سے پہلے لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دیے جانے کی چند لازمی شرائط بھی ہیں۔ ان شرائط میں یہ بھی شامل ہیں کہ مؤذن کی طرف سے اذان کا دورانیہ پانچ منٹ سے زیادہ نہ ہو، لاؤڈ اسپیکروں کی آواز انتہائی اونچی نہ ہو اور اذان دینے سے پہلے ہمسایوں کو اطلاع بھی کی جائے۔
اشتہار
خاتون مئیر کی اجازت کے حق میں دلیل
کولون کی مئیر ریکر نے جب ستمبر میں یہ اعلان کیا تھا کہ اس ماڈل پروجیکٹ پر عمل درآمد کا آغاز اکتوبر کے اوائل سے ہو جائے گا، تو شہر کی اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے کئی شہری اور سماجی حلقوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی، جس کی وجہ سے یہ منصوبہ کچھ متنازعہ بھی ہو گیا تھا۔
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
مئیر ریکر کا تاہم کہنا یہ تھا کہ اس منصوبے کا مقصد شہر کی آبادی میں مختلف مذہبی برادریوں کی طرف سے ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرنے کی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ساتھ ہی میئر نے یہ بھی کہا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ عوام کا یہ حق ہے کہ ہر کسی کو اپنے عقیدے پر عمل درآمد کی کھلی اجازت ہونا چاہیے۔
گرجے کی گھنٹیوں کی بھی تو اجازت ہے
کولون کی میئر ہینریئٹے ریکر کی اس بظاہر متنازعہ قرار دیے جانے والے منصوبے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی، ''یہ کہ ہم اپنے شہر میں گرجے کی گھنٹیوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ مؤذن کی آواز بھی سن سکیں، یہ امر ثابت کرتا ہے کہ کولون شہر میں تنوع کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور وہ مقامی باشندوں کی زندگیوں میں نظر بھی آتا ہے۔‘‘
اس کے برعکس جن ناقدین نے مقامی مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان کی اجازت دینے کی مخالفت کی تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ اس اجازت کے ساتھ شہر کی خاتون میئر ایک مقامی مذہبی اقلیت کو 'ناجائز ترجیح‘ دینے کی مرتکب ہوئی ہیں۔
م م / ا ا (کے این اے، کے ایس اے)
دنیا کی بڑی مساجد ایک نظر میں
یورپ کی سب سے بڑی مسجد روس میں واقع ہے اور اس کا افتتاح گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ اس روسی مسجد میں ایک وقت میں دس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ دنیا کی دیگر بڑی مساجد کی تصاویر دیکھیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/M. Zmeyev
مسجد الحرام
مکہ کی مسجد الحرام کو عالم اسلام کی اہم ترین مساجد میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ ساڑھے تین لاکھ مربع میٹر پر تعمیر کی جانے والی یہ مسجد دنیا کی سب سے بڑی مسجد بھی ہے۔ یہ مسجد سولہویں صدی میں قائم کی گئی تھی اور اس کے نو مینار ہیں۔ خانہ کعبہ اسی مسجد کے مرکز میں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ اس عمارت میں توسیع کی جا چکی ہے اور آج کل اس میں دس لاکھ افراد ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dAP Photo/K. Mohammed
مسجد نبوی
مسجد الحرام کے بعد مسجد نبوی اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اس مسجد میں پیغمبر اسلام کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد سن 622ء میں رکھا گیا تھا۔ اس میں چھ لاکھ افراد کی گنجائش ہے اور اس کے میناروں کی اونچائی ایک سو میٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/epa
یروشلم کی مسجد الاٰقصی
مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مذہبی مقام ہے اور یہ یہودیوں کے مقدس ترین مقام ٹیپمل ماؤنٹ کے ساتھ ہی واقع ہے۔ گنجائش کے حوالے سے اس مسجد میں صرف پانچ ہزار افراد ہی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کا سنہری گنبد دنیا بھر میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ اس مسجد کا افتتاح سن 717ء میں ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
حسن دوئم مسجد، مراکش
مراکش کے شہر کاسابلانکا کی یہ مسجد مراکش کے باشادہ شاہ حسن سے موسوم ہے۔ کاسابلانکا کو دار البیضاء بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کا افتتاح 1993ء میں شاہ حسن کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس کا مینار 210 میٹر اونچا ہے، جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
ابو ظہبی کی شیخ زید مسجد
2007ء میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجد دنیا کی آٹھویں بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا طرز تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے گنبد کا قطُر 32 میٹر کے برابر ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا گنبد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ ہزار مربع میٹر پر بچھایا ہوا قالین ہاتھوں سے بُنا گیا ہے، جو اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے بڑا قالین ہے۔
تصویر: imago/T. Müller
روم کی مسجد
اطالوی دارالحکومت روم کیتھولک مسیحیوں کا مرکز کہلاتا ہے لیکن اس شہر میں ایک بہت بڑی مسجد بھی ہے۔ تیس ہزار مربع میٹر پر پھیلی ہوئی یہ مسجد یورپ کی سب بڑی مسلم عبادت گاہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس مسجد کے احاطے میں اٹلی کا اسلامی مرکز قائم ہے اور یہاں پر ثقافتی اجتماعات کے ساتھ ساتھ سنی اور شیعہ مسالک کی مذہبی تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
گروزنی کی احمد قدیروف مسجد
چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کی مرکزی مسجد جمہوریہٴ چیچنیا کے سابق صدر اور روسی مفتی احمد قدیروف سے موسوم ہے۔ احمد قدیروف 2004ء میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس مسجد کی تعمیر کو چیچنیا میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے کئی مرتبہ ملتوی کرنا پڑا تھا۔ اس عبادت گاہ کو ایک ترک کمپنی نے تعمیر کیا ہے اور اس کا افتتاح 2008ء میں کیا گیا۔ یہ مسجد زلزلہ پروف ہے۔
روسی جمہوریہٴ تاتارستان کی یہ مسجد روسی قبضے سے قبل کے کازان کے آخری امام کی یاد دلاتی ہے۔ اس مسجد کے پڑوس میں ایک آرتھوڈوکس کلیسا بھی قائم ہے اور یہ دونوں عبادت گاہیں تاتارستان میں آرتھوڈوکس اور مسلمانوں کے پر امن بقائے باہمی کی علامت ہیں۔ 2005ء میں نو سال تک جاری رہنے والی تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران اس مسجد کو وسعت دی گئی تھی۔