'لائف لائن‘ پر موجود مہاجرین، چھ یورپی ممالک میں تقسیم
27 جون 2018
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے چھ رکن ممالک مالٹا کے پانیوں سے کچھ دور پھنسے ایک جہاز پر موجود دو سو سے زائد مہاجرین کو قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Poschmann
اشتہار
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے روم میں مسیحیوں کے روحانی پیشوا سے بات کرنے کے بعد کہا کہ یورپی یونین کی چھ رکن ریاستیں جن میں اٹلی، پرتگال اور فرانس بھی شامل ہیں، جرمن این جی او کے ’لائف لائن‘ نامی جہاز پر موجود 233 مہاجرین کو لینے پر تیار ہو گئی ہیں۔
فرانسیسی صدر نے تاہم جرمن این جی او کو بھی ’ قوانین کی خلاف ورزی‘ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ماکروں کا موقف تھا کہ این جی او کے جہاز نے مہاجرین کے پاس پہنچ کر اُس وقت مداخلت کی جب لیبیا کی کوسٹ گارڈ امدادی کارروائی شروع کر چکی تھی۔
ماکروں کا کہنا تھا،’’ ہم اس صورت حال کو مستقل طور پر قبول نہیں کر سکتے۔ آخر میں تو ہم سمندری سفر کے خطرات کو کم کرتے ہوئے انسانی اسمگلروں کے ہاتھ ہی میں کھیل رہے ہیں۔‘‘
ایمانوئل ماکروں کا یہ تبصرہ مالٹا کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں اُس نے مہاجرین کے جہاز کو صرف اُس صورت میں لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی اگر یورپی یونین کے ساتھی ممالک بھی اپنا کوٹہ قبول کریں۔
ایک جرمن غیر سرکاری فلاحی تنظیم کا جہاز’لائف لائن‘ گزشتہ ایک ہفتے سے بین الاقوامی پانیوں میں سرگرداں تھا۔ اس جہاز پر حاملہ خواتین اور بچوں سمیت دو سو تینتیس مہاجرین سوار تھے جنہیں سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا تھا۔ ابتدا میں اٹلی اور مالٹا کی حکومتوں نے جہاز کو اپنے اپنے علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
تاہم والیٹا حکومت نے منگل کے روز یورپی ممالک کی جانب سے مدد کے وعدے کے بعد جہاز کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
گزشتہ ہفتے بھی کم و بیش ایسی ہی صورت حال سامنے آئی تھی جب اٹلی نے ایکوئیریس نامی ایک امدادی جہاز کو جس پر کئی سو مہاجرین سوار تھے، اپنی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے سے روک دیا تھا۔ مالٹا کی حکومت نے بھی ان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ بالآخر اسپین نے اس جہاز پر سوار تارکین وطن کو اپنے ہاں اترنے کی اجازت دی تھی۔
ص ح/ ع ا / نیوز ایجنسی
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔