کشمیر کے متنازعہ علاقے میں واقع لائن آف کنٹرول پر تازہ گولہ باری کے نتیجے میں چار کشمیری ہلاک ہو گئے۔ اطراف نے ایک دوسرے پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستانی اور بھارتی حکام کے حوالے سے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ کشمیر کے متنازعے علاقے میں واقع لائن آف کنٹرول پر بھارتی اور پاکستانی فورسز نے ایک دوسرے پر بھاری شلینگ کی، جس کی وجہ سے چار افراد ہلاک جبکہ اتنے ہی زخمی ہو گئے۔
بھارتی حکام کے مطابق جمعے کی رات پاکستانی فوج کے حملوں کے نتیجے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں دو بچے اور ان کی ماں ہلاک ہوئی۔ یہ ہلاکتیں لائن آف کنٹرول کے نزدیک ہی واقع پونچھ سیکٹر میں ہوئیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان بچوں کا والد شدید زخمی ہوا ہے، جسے طبی امداد دی جا رہی ہے۔
ادھر پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ بھارتی گولہ باری میں ایک کشمیری مارا گیا۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حکومتی اہلکار عمر اعظم نے بتایا ہے کہ بھارتی فورسز نے بھاری توپخانے کی مدد سے ’سرحدی دیہات پر بلاامتیاز شیلنگ‘ کی۔ اس کارروائی میں تین دیگر کشمیری زخمی بھی ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی گولہ باری کی وجہ سے متعدد مکانات کو شدید نقصان بھی پہنچا۔
اس تازہ کارروائی کے لیے بھی دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سن دو ہزار تین کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ چھبیس فروری کو بھارتی فضائیہ کی طرف سے پاکستان میں کارروائی کے بعد سے دونوں ممالک میں کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔
چودہ فروری کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں واقع پلوامہ ہوئے ایک دہشت گردانہ حملے کے جواب میں بھارتی فضائیہ نے پاکستان میں کارروائی کی تھی۔ پلوامہ حملے میں چالیس سے زائد بھارتی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
بھارتی فضائیہ کی کارروائی کے ایک روز بعد ہی پاکستانی فضائیہ نے پاکستانی کشمیر کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر ایک بھارتی MiG 21 جنگی طیارہ مار گرایا تھا جبکہ پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا۔ پاکستان حکومت نے امن کی کوششوں کی خاطر اس پائلٹ کو بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین اس کشیدگی کے باعث عالمی طاقتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اختلافات دور کرنے کی کوشش کریں۔ جمعرات کے دن ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ ویت نام کے دوران ہنوئے میں کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین اس کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
بھارتی حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ پاکستان بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال باغیوں کو تربیت اور ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم اسلام آباد ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ بھارتی کشمیر میں سن 1989 سے باغی تحریکیں فعال ہیں، جو کشمیر کی مکمل آزادی یا اس کے پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں تقریبا گزشتہ چار دہائیوں میں کم ازکم 70 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ع ب / ع ا / اے پی
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔