لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ، پانچ عام شہری ہلاک
18 مارچ 2018
پاکستانی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں پانچ عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ متنازعہ خطے کشمیر میں ہونے والی اس جھڑپ کے نتیجے میں حکام کے مطابق دو دیگر افراد زخمی بھی ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پريس نے بھارتی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ پونچھ سیکٹر میں پاکستانی فوجیوں کی طرف سے داغا جانے والا ایک شیل ایک گھر پر جا گرا جس کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد مارے گئے۔
بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ سن 2003 میں طے پانے والے فائر بندی معاہدے کی پاکستانی فوجیوں کی طرف سے بلا اشتعال خلاف ورزی کے بعد بھارتی فوجی اس کا مناسب جواب دے رہے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کی جانب سے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آيا تاہم دونوں ہمسایہ ریاستیں اس متنازعہ خطے میں سرحد کے آر پار فائرنگ کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتی رہتی ہیں۔
کشمیر کا خطہ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔ دونوں ممالک اس مسئلے پر اب تک دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
دوسری طرف بھارتی زیر انتظام کشمیر میں 1990ء کی دہائی سے کشمیری بھارت سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس دوران اب تک 70 ہزار سے زائد کشمیری مارے جا چکے ہیں۔ بھارت پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی مسلح جدوجہد میں ان کی مدد کر رہا ہے تاہم پاکستان اس طرح کے الزامات کو رد کرتا ہے۔
حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی باعث دونوں جانب اب تک درجنوں فوجی اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتھا رامن کا دعویٰ ہے کہ رواں برس جنوری میں پاکستانی فوج نے لائن آف کنٹرول پر 209 مرتبہ فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جبکہ فروری کے پہلے نصف حصے میں ایسی خلاف ورزیوں کی تعداد 142 تک پہنچ گئی تھی۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔