لائیو اپ ڈیٹ: طالبان کا پرامن منتقلی اقتدار کا مطالبہ
15 اگست 2021-
افغان صدر اشرف غنی تاجکستان روانہ ہو گئے
-
جرمنی نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا
-
پاکستان نے افغانستان سے متصل سرحدی راستے بند کر دیے
- طالبان نے بگرام ایئر بیس پر کنٹرول حاصل کر لیا
- طالبان کے مطابق وہ طاقت کے ذریعے کابل پر قبصہ نہیں کریں گے
- امریکا نے کابل سے اپنا سفارتی عملہ اور شہری نکالنے کا عمل شروع کر دیا
طالبان کابل کے صدر دفتر میں
میڈیا رپورٹوں کے مطابق افغان طالبان کابل میں واقع صدر دفتر میں داخل ہو گئے ہیں جبکہ وہاں سے افغانستان کے قومی پرچم اتار دیے گئے ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی وژن کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کا وفد صدر دفتر میں داخل ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے مذاکرات کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔
خون ریزی نہیں چاہتا تھا، اشرف غنی
افغان صدر اشرف غنی نے ملک چھوڑنے کے بعد جاری کیے گئے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ وہ خونریزی نہیں چاہتے تھے، اس لیے ملک چھوڑ گئے۔ انہوں نے فیس پک پیچ پر لکھا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ غنی کے مطابق، ’’ میں نے سوچا کہ خون کے دریا بہانے کے بجائے میں ملک چھوڑ جاؤں۔
جرمنی فوجی جہاز کابل بھیجے گا، وزیر خارجہ
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ کابل سے لوگوں کے انخلا کو ممکن بنانے کے لیے جرمن فضائیہ کے طیارے کابل روانہ کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کی شام ایک مختصر بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ جرمن فوجی طیارے کابل سے لوگوں کو لے کر ہمسایہ ممالک لے جائے گا، جہاں سے وہ مسافر پروازوں کے ذریعے جرمنی لائے جائیں گے۔
ہائیکو ماس نے کہا کہ کابل میں موجود جرمن عملے کے کچھ ارکان اتوار کی رات ہی واپس روانہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ کابل میں جرمن سفارت خانے کے عملے اور مقامی سطح پر جرمنی کے لیے کام کرنے والے افراد کی سکیورٹی اولین ترجیح ہے۔
منتقلی اقتدار کی کونسل کی سربراہی حامد کرزئی بھی کریں گے
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ افغان رہنماؤں نے ایک کونسل قائم کر دی ہے، جو افغانستان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کو ممکن بنائے گی۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ اس کونسل کی سربراہی کرنے والوں میں ان کے ساتھ اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے چیف گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔
کرزئی نے مزید کہا کہ اس کونسل کے قیام کا مقصد اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانا اور افراتفری سے بچتے ہوئے عوام کے مصائب کو کم سے کم کرنا ہے۔
افغان صحافیوں کو فوری ویزہ دیا جائے، جرمن میڈیا
جرمنی میں صحافیوں کی تنظیم نے ایک ہنگامی اپیل جاری کی ہے، جس میں جرمن حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ ایسے افغان صحافیوں کو فوری طور پر ویزہ جاری کیا جائے، جو افغانستان سے جرمن میڈیا ہاؤسز کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان میڈیا اداروں میں ڈوئچے ویلے سمیت جرمنی کے دیگر نمایاں ادارے بھی شامل ہیں۔ اتوار کے دن ایک کھلے خط میں جرمن حکام سے کہا گیا کہ ’افغانستان میں جرمن میڈیا کے لیے کام کرنے والے فری لانس صحافیوں کی جانوں کو سخت خطرہ ہے‘۔
کابل کے ایئر پورٹ پر آتشزدگی کی اطلاعات
افغان دارالحکومت میں قائم امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر خبردار کیا گیا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آتشزدگی کی طلاعات ہیں، اس لیے امریکی شہری محفوظ مقامات پر ہی رہیں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی فورسز نے کابل میں عبوری سفیر کو ہوائی اڈے پہنچا دیا ہے جبکہ امریکی سفارت خانے سے امریکی پرچم اتار دیا گیا ہے۔
ادھر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ ژینس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ وہ اتحاد کی مشاورت میں ہیں تاکہ کابل کے ہوائی اڈے پر معمول کی پروازیں متاثر نہ ہوں۔
شہریوں اور مہاجرین کو تحفظ دیا جائے، ملالہ کی اپیل
ملالہ یوسفزئی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کی تیز رفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’دھچکے‘ میں آ گئی ہیں۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ نے کہا کہ وہ اب افغانستان میں خواتین، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے سرکردہ علمبرداروں کے لیے فکر مند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی طاقتوں کو افغانستان میں سیز فائر کی کوششیں تیز کر دینا چاہیے۔ ملالہ کے مطابق افغانستان میں شہریوں اور مہاجرین کے تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کے لیے فوری امداد کو یقینی بنانا چاہیے۔
لوٹ مار کے پیش نظر طالبان جنگجو کابل میں داخل
خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ کابل میں لوٹ مار کے خطرے کے پیش نظر جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ طالبان کے ترجمان کے مطابق پولیس کی طرف سے اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
اشرف غنی تاجسکتان چلے گئے، ذرائع
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہافغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ایک افغان سینیئر سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے اس امریکی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ صدر اشرف غنی ہمسایہ ملک تاجکستان چلے گئے ہیں۔ قبل ازیں صدر غنی کے دفتر نے البتہ کہا کہ صدر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ کہاں ہیں۔
بگرام ایئربیس طالبان کے حوالے
افغان فورسز نے مشہور زمانہ بگرام ایئربیس کا کنٹرول طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔ بگرام کے ضلعی سربراہ درویش رؤفی کے مطابق وہاں تقریباﹰ پانچ ہزار قیدی موجود ہیں۔ امریکا کے اس سابق ایئربیس کی جیل میں زیادہ تر طالبان اور داعش سے تعلق رکھنے والے جنگجو قید تھے۔
اسی طرح طالبان نے طورخم بارڈر کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس بارڈر پر تمام آمد و رفت معطل کر دی گئی ہے۔
دریں اثناء جرمنی نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیٹو کے مطابق وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور کابل میں سفارتی موجودگی قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔
اقتدار کی ’پرامن منتقلی‘ کے لیے مذاکرات جاری
طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ’پرامن سرنڈر‘ کے لیے افغان حکومت سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ وہ ’’کابل شہر کی پرامن منتقلی کے منتظر ہیں۔‘‘
افغان وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ ’اقتدار پرامن طریقے‘ سے عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ کابل پر حملہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ کابل پر حملہ نہ کرنے کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے تازہ صورتحال کے بارے میں امریکا کے خصوصی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد سے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ہنگامی بات چیت شروع کر دی ہے۔
طالبان کابل میں داخل
افغان وزارت داخلہ کے مطابق طالبان نے سبھی اطراف سے دارالحکومت کابل میں داخل ہونا شروع کر دیا ہے۔ نیٹو حکام کے مطابق یورپی سفارتی عملے کو کابل میں ہی ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
طالبان قیادت کا اپنے جنگجوؤں کے نام پیغام
دوحہ میں ایک طالبان رہنما نے کہا ہے کہ طالبان قیادت نے دارالحکومت میں داخل ہونے والے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ تشدد سے گریز کریں، جو کسی دوسری جگہ جانے کے لیے محفوظ راستہ طلب کرے، اسے جانے دیا جائے اور خواتین کو محفوظ مقامات تک جانے کی اجازت دی جائے۔
طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ’طاقت کی بنیاد‘ پر کابل پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے۔
سفارتی عملے کا انخلا
افغان دارالحکومت کابل میںامریکی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں ہیلی کاپٹر لینڈ کرتے دیکھے جا سکتے ہیںجبکہ عملہ خصوصی گاڑیوں کے ذریعے سفارت خانے سے نکل رہا ہے۔ سفارت خانے سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی حکام نے کہا تھا کہ حساس مواد جلانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
امریکا کی طرف سے یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آئی ہے، جب افغان طالبان نے ملک کے آخری بڑے شہر جلال آباد پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس طرح افغان حکومت صرف کابل تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے جبکہ دارالحکومت کے ارد گرد طالبان گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔
جلال آباد پر قبضہ
طالبان نے افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد پر قبضہ کر لیا ہے۔ خبر رساں اداروں کو مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ صوبہ ننگرہار کا دارالحکومت بغیر کسی لڑائی یا مزاحمت کے طالبان کو سونپ دیا گیا اور صوبائی گورنر نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ یہ شہر پاکستانی سرحد کے قریب سب سے بڑا شہر بھی ہے اور اسے پاکستان کے ساتھ تجارت کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ توقعات کے برعکس حالیہ ایک ہفتے کے دوران طالبان نے متعدد دارالحکومتوں پر آسانی سے قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان جنگجوؤں کی جانب سے یا تو افغان فورسز کو شکست دے دی گئی یا پھر ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہیں بھاگنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
صدر اشرف غنی 'تنہا‘ رہ گئے
طالبان کی تیز تر پیش قدمی کے بعد گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کے لیے سامنے آئے تھے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ قبائلی سردار جنہوں نے ایک روز قبل ہی صدر غنی سے ملاقات کی تھی، یا تو بھاگ گئے ہیں یا پھر انہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس طرح صدر اشرف غنی بغیر کسی 'فوجی طاقت تنہا رہ‘ گئے ہیں۔ دوسری جانب قطر میں جاری مذاکرات بھی اس حوالے سے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ طالبان اپنی پیش قدمی روک دیں۔
'اشرف غنی کا استعفی کابل کو بچا سکتا ہے‘
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو کے سابق سینئر مشیر اور کینیڈا اور فرانس میں سابق افغان سفیر عمر صمد کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ دو عشروں میں افغان حکومت کی کرپشن سے طالبان کی 'حوصلہ افزائی‘ ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی ابھی تک مستعفی ہونے سے انکار کر رہے ہیں، ''بظاہر صدر ابھی عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تاکہ عبوری حکومت کی راہ ہموار کی جا سکے لیکن افغانستان کو ایک عبوری حکومت ہی چاہیے، جو ممکنہ طور پر کابل کو کسی بھی قسم کے حملے سے بچا سکتی ہے۔‘‘
عمر صمد کے مطابق فی الحال طالبان کابل پر حملہ نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ بچا تو پھر وہ حملہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ
طالبان کی پیش قدمی کی وجہ سے ہزاروں افراد، بچے بوڑھے اور خواتیناپنے ہی ملک میں بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں۔ دارالحکومت کابل میں بھی پارکوں اور کھلی جگہوں پر رش بڑھتا جا رہا ہے کیوں کہ لوگ مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔ دارالحکومت کے بینکوں کے سامنے عوام کی لائنیں لگی ہوئی ہیں کیوں کہ وہ اپنی جمع پونجی بینکوں سے نکلوا رہے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے امیر اور کاروباری حضرات جلد از جلد ملک چھوڑنے کے لیے کابل ایئرپورٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ افغانستان سے باہر نکلنے کا یہ اب واحد راستہ بچا ہے۔
ا ا / ع آ (روئٹرز، اے پی، ڈی ڈبلیو)