لاشیں بدل گئیں: جرمنی میں ترک مسلمان کی میت غلطی سے نذر آتش
26 دسمبر 2022
جرمن شہر ہینوور میں دو افراد کی لاشوں کی شناخت غلطی سے بدل جانے کے بعد ایک مسلمان کی میت دفن کیے جانے کے بجائے نذر آتش کر دی گئی۔ پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ مسلمانوں کی صوبائی تنظیم نے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔
اشتہار
شمالی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے دارالحکومت ہینوور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہینوور میڈیکل یونیورسٹی (ایم ایچ ایچ) کی انتطامیہ نے اس نادانستہ غلطی پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ایم ایچ ایچ کی طرف سے جاری کردہ ایک معذرتی بیان میں کہا گیا ہے، ''ہینوور میڈیکل یونیورسٹی دو لاشوں کی شناخت کے حادثاتی طور پر بدل جانے کے نتیجے میں پیش آنے والے اس واقعے پر گہرے افسوس اور متعلقہ مسلمان کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔‘‘
اشتہار
تدفین کے لیے میت کے بجائے راکھ
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جس مسلمان کی میت کو گزشتہ جمعے کے روز غلطی سے نذر آتش کر دیا گیا، وہ ایک 71 سالہ مرد اور ترک شہری تھا۔ اخبار 'ہینورشے الگمائنے سائٹنگ‘ کے مطابق اس مسلم مرد کی میت کو جس دوسرے شخص کی لاش سمجھ کر نذر آتش کر دیا گیا، وہ ہینوور ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک 81 سالہ مرد تھا۔
ہینوور میڈیکل یونیورسٹی کے عملے کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب انتقال کر جانے والے ترک شہری کے اہل خانہ اس کی تدفین کی تیاریاں کر رہے تھے اور متوفی کی میت کے بجائے ایک راکھ دان میں اس کی راکھ اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔
اس غلطی کے انکشاف کے بعد متوفی ترک شہری کے لواحقین نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کر دی، جس کی طرف سے تفتیش جاری ہے۔
ہینوور پولیس کے ترجمان کے مطابق، ''ہم دونوں متاثرہ خاندانوں کے ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں مگر اس واقعے کی ایک قابل سزا مجرمانہ واقعے کے طور پر چھان بین نہیں کی جا رہی کیونکہ یہ ایک غلط فہمی تھی، جس میں اب تک کسی بھی دانستہ مجرمانہ اقدام کا کوئی سراغ نہیں ملا۔‘‘
جرمنی میں کفن دفن کے حوالے سے سخت روایت ہیں اور اُن پر کاربند رہنا لازمی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اس فوٹو گیلری میں مختلف روایات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
تصویر: Museum für Sepulkralkultur Kassel
آخری آرام گاہ
جرمن دفتر شماریات کے مطابق سن 2016 میں نو لاکھ سے زائد کی اموات ہوئی تھی۔ جرمنی میں قریب سبھی شہروں اور قصبوں میں قبرستان موجود ہیں۔ دوسری جانب تدفین کے طریقوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اس میں خاص طور پر قبرستان میں روایتی ہریالی والی جگہوں سے اجتناب کیا جانے لگا ہے۔
تصویر: Imago/W. Otto
تدفین کے روایتی طریقے
کفن دفن مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور اس باعث قبرستانوں میں مخصوص خاندانی جگہوں پر سرمایہ کاری میں کمی ہو چکی ہے۔ جرمن شہروں کے رہائشی کم خرچ تدفین کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس میں بھی تابوت یا جلائے گئے مردے کی راکھ کے لیے مخصوص برتن ضروری ہے۔ مردے کو نذر آتش کرنے کے بعد راکھ سربمہر برتن میں محفوظ کر کے کسی قبرستان میں دفن کرنا بھی اہم ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
بعد از موت
جرمنی میں جلائے گئے مردے کی راکھ رکھنے کے لیے خوبصورت نقش و نگار سے مزین اور وقت کے ساتھ مٹی میں شامل ہونے والے خاص برتن بھی اب اہم ہو چکے ہے۔ شہروں میں مردہ جلانے کی روایت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ سن 2015 میں جرمن ریاست بریمن نے بعد از موت تدفین کے ضابطوں میں نرمی پیدا کی اور اس کے تحت اہل خانہ اپنے جلائے ہوئے مردے کی راکھ اپنے مکان کے عقبی باغیچے میں پھیلا سکتے ہیں۔
تصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/picture-alliance/dpa
اپنی جڑوں کی جانب واپسی
جرمنی میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ مردے کی راکھ بتدریج مٹی میں شامل ہونے والے برتن میں رکھ کر کسی درخت کی جڑوں میں دفن کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنگل میں مخصوص علاقے مختص ہیں۔ ایسی تدفین کے لیے کوئی نگران مقرر نہیں کیا جاتا۔ جنگل میں خاکدان رکھنے کے مقام پرشمعیں جلانا اور پھول رکھنے کی ممانعت ہے۔ یہ کھلا مقام قدرتی اور پرسکون محسوس خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Arno Burgi/picture-alliance/dpa
تابوت سازی
جرمنی میں تابوت سازی کے لیے مخصوص ورکشاپ قائم ہیں۔ اس تصویر میں لاعلاج مریضوں کے مرکز کی انچارج لیڈیا رؤڈر کے ساتھ تابوت پر نقش و نگار کی آرٹسٹ آنا ایڈم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھ سے تابوت تیار کرتی ہیں۔ اس کی قیمت چند سو یورو ہے جو مارکیٹ میں دستیاب تابوت کی قیمت سے بہت کم ہے۔ جرمن مارکیٹ میں تابوت کی قیمتیں ایک ہزار یورو سے شروع ہوتی ہیں۔
تصویر: Christian Lohse
تدفین سے قبل رحلت پانے والے کا دیدار
یورپ میں رحلت پانے والے خاندان کے لوگ انتہائی قریبی احباب کے لیے تابوت کو دفن کرنے سے قبل کھولتے ہیں اور چہرے کا دیدار کرتے ہیں۔ یہ کئی یورپی ممالک میں مقبول ہے لیکن جرمنی میں اس کی روایت قدرے کم ہے۔
تصویر: Roland Mühlanger/Imago
اظہار تعزیت اور ہمدردی
جرمن محکمہ ڈاک نے رحلت کے موقع پر اظہار افسوس کے روایتی خط یا پوسٹ کارڈ روانہ کرنے کے حوالے سے خصوصی اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی تخلیق کیے ہیں۔ تدفین کی رسومات میں شرکت کے لیے بھی خصوصی پوسٹ کارڈ دستیاب ہیں۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ غم زدہ خاندان کو پھول دینا بہتر ہے یا عطیات دیے جائیں۔
تصویر: Dagmar Breitenbach/DW
تدفین، سماجی رویے اور طعام
جرمنی میں تدفین اور دعائیہ عبادت کے بعد خصوصی دعوت پر قریبی دوست احباب اور رشتہ داروں کو دعوتِ طعام بھی دی جاتی ہے۔ اس دعوت میں کافی، سینڈوچز اور کیک کھانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر رحلت پا جانے والے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ ایسی دعوت طعام میں روایتی اسنیک Leichenschmaus بھی تیار کر کے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: Daniel Karmann/picture alliance/dpa
گورکن بننے کا علم
جرمن حکومت نے سن 2005 میں مستقبل کے گورکنوں کی تربیت پر توجہ دینی شروع کی۔ اس مقصد کے لیے ایک مرکز باویرا کے شہر میونسٹر اشٹڈ میں قائم کیا گیا۔ خصوصی ماہر ٹیچرز گورکنوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اس مرکز میں تربیت کا دورانیہ تین برس پر محیط ہے۔ کورس میں تدفین کی رسومات کے علاوہ غم زدہ خاندانوں کو تسلی تشفی دینے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اسی مرکز میں چین اور روس کے گورکن بھی اعلیٰ تربیت کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: C. Löwinger
گورکنی کے عملی پہلو
تدفین کے سلسلے میں خاص طور قبر کھودنے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قبر کھودنے میں اطراف کی دیواروں کا خاص انداز میں تیار کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ قبر کے کتبے کے بوجھ یا بارش کے پانی سے منہدم نہ ہو جائے۔ اسی طرح مردے کی خاک والے برتن کو کس انداز میں قبر میں رکھنا چاہیے۔ اس مناسبت سے باویرین انڈرٹیکرز ایسوسی ایشن نے میونسٹراشٹڈ میں سن 1994 سے تربیتی قبرستان قائم رکھا ہے۔
تصویر: Rosina Eckert
تدفین کی رسومات اور ثقافت
جرمن شہر کاسل میں تدفین سے جڑی رسومات کا ایک خاص عجائب گھر قائم کیا گیا ہے۔ یہ عجائب گھر سن 1992 میں کھولا گیا تھا۔ اس میں قبر، قبرستان اور کفن دفن کے حوالے سے معلومات میسر ہیں۔ تابوت لے جانے والی جدید کار کے ساتھ اسی میوزیم سے حاصل کی گئی تصویر میں سن 1880 میں میت لے جانی گھوڑا گاڑی دکھائی گئی ہے۔
تصویر: Museum für Sepulkralkultur Kassel
11 تصاویر1 | 11
مسلمانوں کی صوبائی تنظیم کی طرف سے مذمت
جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں مسلمانوں کی ایک تنظیم 'شوریٰ لوئر سیکسنی‘ نے اس افسوس ناک واقعے پر گہرے دکھ اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ ہینوور میڈیکل یونیورسٹی میں جیسے بھی حالات میں ایک مسلمان اور ایک مسیحی باشندے کی لاشوں کی شناخت بدل جانے کا یہ واقعہ پیش آیا، یونیورسٹی ہسپتال کی انتظامیہ کو اس کی تفصیلی چھان بین کر کے مستقبل میں ایسے کسی بھی ممکنہ واقعے کے دوہرائے جانے کا راستہ روکنا چاہیے۔
شوریٰ لوئر سیکسنی کے سربراہ رجب بِلگین نے ایک بیان میں کہا کہ متعلقہ ترک شہری کی موت اس کے اہل خانہ کے لیے دوہرے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنی۔ رجب بِلگین کے بقول ایک تو اس خاندان کے افراد پہلے ہی اپنے اس رکن کی موت پر شدید صدمے میں تھے اور دوسرے یہ کہ اس مسلمان کی میت بھی جلا دی گئی، جو کہ اسلامی مذہبی احکامات کے سراسر منافی اور انتقال کر جانے والے مسلمانوں کی آخری رسومات کے جائز طریقہ کار کے بالکل برعکس ہے۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، ہینورشے الگمائنے سائٹنگ)
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔