لاطینی امریکا: جلسے، جلوس اور ہنگاموں کے پیچھے کیا ہے؟
26 اکتوبر 2019
کیا ایکواڈور اور چلی میں حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ لاطینی امریکا کے دیگرملکوں تک پھیل سکتا ہے؟
تصویر: imago-images/Aton Chile/A. Pina
اشتہار
چلی کے دارالحکومت سانتیاگو میں جمعے کے مظاہرے کو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت مخالف مظاہرے میں دس لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرین صدر سباستیان پِنیرا کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سانتیاگو کی میئر کارلا روبیلار بھی عوامی غم و غصے کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پرمظاہرے کی ویڈیو شیئر کی اور کہا، ''آج چلی میں ایک تاریخی دن تھا۔ سانتیاگو میٹروپولیٹن علاقے میں قریب ایک ملین افراد نے پرامن مظاہرہ کیا۔ یہ لوگ ایک نئے چلی کے خواب کے ترجمان ہیں۔‘‘
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پہلے ایکواڈوراور پھر چلی میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت دیکھی گئی ہے۔ یہ دونوں ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ڈھائی ہزار کلومیٹر دور واقع ہیں۔ دونوں ملکوں میں عوامی مظاہرے ان کے صدور کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ مظاہروں کے بعد دونوں حکومتوں نے کچھ معاشی اصلاحات کا اعلان کیا، لیکن لوگ مطمئن نہ ہوئے اور احتجاج پھیلتا چلا گیا۔
آئی ایم ایف کی معاشی اصلاحات سے پریشانی
جرمنی کے تھنک ٹینک فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن میں لاطینی امریکا کی ڈائریکٹر والیسکا ہیسے کے مطابق ان مظاہروں کے محرکات باقی لاطینی امریکی ممالک میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
پانچ دہائیوں سے زائد کے عرصے میں آئی ایم ایف ہمیشہ ایک ہی نسخہ اختیار کیے ہوئے ہے، یعنی اقتصادی آزادی (نجکاری) اور عوامی اخراجات میں کمی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی کے لیے ارجنٹینا اور ایکواڈور دونوں کو معاشی کفایت شعاری اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
لیکن ایکواڈور اور ارجنٹائن کے برعکس چلی کو قرضوں کا مسئلہ درپیش نہیں۔ ہیسے کے مطابق اس کے باوجود چلی کے عوام کی اقتصادی حالت دیگر لاطینی امریکی ممالک سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
چلی میں مظاہرے: ہلاکتیں بڑھتی ہوئیں
چلی کے دارالحکومت سنتیاگو میں پرتشدد مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتیں آٹھ ہو گئی ہیں۔ سنتیاگو ہی میں ایک کپڑے بنانے والی فیکٹری کو بھی آگ لگا دی گئی اور اس میں پانچ افراد مارے گئے تھے۔ رات کا کرفیو بدستور جاری ہے۔
تصویر: Reuters/E. Garrido
ملک گیر مظاہرے
فوجی ڈکٹیٹر اگوسٹو پنوشے کے بعد سے اب بھی شہر کی سڑکوں پر فوجی سپاہیوں کو دیکھ کر عام لوگ خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور انہیں آمریت کا زمانہ یاد آ جاتا ہے۔ سنتیاگو کی سڑکوں پر بکتر بند فوجی گاڑیوں کا گشت بھی جاری ہے۔ شدید مظاہروں کے بعد ایک بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ یہ مظاہرے سنتیاگو سمیت کئی دوسرے شہروں میں بھی جاری ہیں۔ اس تصویر میں ایک شخص فوجیوں کے قریب ملکی جھنڈا لہرا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/I. Alvarado
سینکڑوں گرفتاریاں
جنوبی امریکی ملک چلی کی معشیت خاصی مناسب اور بہتر حال میں ہے لیکن عوام کو شہری سہولتوں کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ اس باعث بیزار اور پریشان عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ کئی دنوں سے جاری مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا ہے۔
تصویر: AFP/M. Bernetti
امیر اور غریب میں بڑھتی خلیج
مظاہروں کا آغاز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کیے جانے والے اضافے کا نتیجے میں ہوا۔ اس اضافے سے چلی میں نجی کاری کی حکومتی پالیسی کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ ورکرز کی اجرتیں کم ہیں اور اعلیٰ عہدے داران کو بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ تنخواہوں اور مالی مراعات میں تفریق سے عوام میں عدم اطمینان اور تفاوت بڑھتا جا رہا ہے۔
تصویر: AFP/M. Bernetti
ہنگامی حالت کا نفاذ
مظاہرے شروع ہونے کے بعد مشتعل مظاہرین نے میٹرو اسٹیشنوں، بسوں اور کاروباری مراکز کو آگ لگانا شروع کر دی۔ اس پرتشدد صورت حال کے تناظر میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا اور فوج کی تعیناتی شروع کر دی گئی تا کہ مظاہرین کو کنٹرول کیا جا سکے۔ چلی کے کئی شہروں میں مظاہروں کے بعد کرفیو کا نفاذ بھی کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Imago-Images/Aton Chile/S. Cisternas
پرتشدد صورت حال
چلی کے صدر سیباستیان پینیئرا نے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کا حالیہ حکومتی فیصلہ واپس لے لیا لیکن عوامی بےچینی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پرتشدد واقعات نے ملکی امن و سکون کو غارت کر دیا ہے اور اب بھی حالات میں بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ ہلاکتوں اور مظاہرین کو تحویل میں لینے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Felix
کیا یہ ناممکن ہے؟
مظاہرین ایسے بینر اٹھائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہے ’حقیقت پسند ہونا ضروری ہے’ اور ’ کیا یہ ناممکن ہے‘۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بینر ملک میں پائی جانے والے معاشی تفریق و بے چینی کے ساتھ ساتھ عدم مساوات کا اشارہ دیتے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کو معاشی پالیسیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کی منڈی میں مالی ترغیبات کو متعارف کرانا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Vera
6 تصاویر1 | 6
چلی کے بارے میں والیسکا ہیسے نے بتایا، ''چلی دنیا کا سب سے زیادہ نیولبرل ملک ہے۔ صحت، تعلیم اور پینشن سمیت عوامی زندگی کے ہر شعبے کی نجکاری کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود عوام اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے اور عوامی مظاہروں کی وجہ بھی یہی ہے۔ مڈل کلاس افراد کی ماہانہ اوسط کمائی قریب سات سو یورو بنتی ہے جبکہ اُن کے اخراجاتِ زندگی برلن کے برابر ہیں۔‘‘
'معاشی عدم مساوات کی انتہا‘
اعداد و شمار کے مطابق چلی کی اقتصادی حالت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ لاطینی امریکی اکنامک کمیشن کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2016 سے سن 2019 کے درمیان چلی میں غربت کی شرح میں بھی تین فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اسی رپورٹ کے مطابق ملک کی ایک چوتھائی دولت محض ایک فیصد طبقے کے پاس ہے۔
ماہرین کے مطابق زیادہ تر جنوبی امریکی ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔ اس بات کا اندازہ عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق دنیا کے دس بدترین معاشی عدم مساوات کے حامل ممالک میں سے آٹھ لاطینی امریکی ملک ہیں، جن میں چلی بھی شامل ہے۔
عراق میں احتجاجی مظاہرے، بیسیوں افراد ہلاک
عراق میں گزشتہ تین روز سے غربت اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مزید مظاہروں کے پیش نظر دارالحکومت بغداد میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان کے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. al Mohammedaw
پولیس کا کریک ڈاؤن
پولیس نے مظاہرین کی گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش کا جواب آنسو گیس، سڑکوں کی بندش اور ربڑ کی گولیوں اور لائیو فائرنگ سے دیا۔ مظاہرین نے التحریر اسکوائر چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران دو سو سے زائد مظاہرین زخمی اور ایک ہلاک ہو گیا۔ اسی دن عراق کے کئی دیگر شہروں میں بھی درجنوں افراد زخمی ہوئے اور ایک شخص مارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mohammed
صبر و تحمل کی اپیل
نئی عراقی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد بغداد میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور عراقی صدر نے مظاہرین سے قانون کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اعلٰی اہلکاروں نے اس صورتحال پر ’گہری تشویش‘ ظاہر کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Belaid
مزید احتجاج، مزید ہلاکتیں
اس کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔ دو اکتوبر کو بغداد کے پرانے حصے میں مظاہروں کا آغاز ہوا۔ پولیس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے وہاں پہلے ہی موجود تھی اور نئے سرے سے فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔ شام تک مزید سات افراد ہلاک ہو چکے تھے اور دو دن میں ہی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
احتجاجی مظاہرے پھیلتے ہوئے
یہ احتجاجی مظاہرے بغداد سے ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کئی علاقوں میں مظاہرین نے سرکاری عمارات کو آگ بھی لگا دی۔ عراقی وزیر اعظم نے ان مظاہروں کا الزام ’جارحیت پسندوں‘ پر عائد کرتے ہوئے ایک ہنگامی قومی سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا۔ کئی سیاستدان حکومت اور کئی دیگر مظاہرین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Mizban
بغداد میں کرفیو لیکن ہلاکتیں جاری
ابھی تک ملک کے کئی حصوں میں جاری احتجاج کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر ناصریہ میں اب تک 18 اور بغداد میں 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ عراق کے اعلیٰ شیعہ رہنما سید علی حسینی سیستانی نے فریقین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
عراق کا سفر نہ کریں!
قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے گریز کریں۔ خلیجی ملک بحرین نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہی پیغام جاری کیا ہے۔ ایران نے بھی اپنے شہریوں کو عراق جانے سے روک دیا ہے۔ بغداد حکومت نے بھی سرحدوں کی نگرانی سخت بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
ایران کا اسرائیل اور امریکا پر الزام
ایران کے ایک سینئر اہلکار اور سیاستدان محمد امامی کاشانی نے بدامنی کے ان واقعات کا الزام اسرائیل اور امریکا پر عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک نہیں چاہتے کہ عراق میں رواں ماہ کے اواخر میں کربلا کا اجتماع پرامن طریقے سے ہو۔ ایران ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا آیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. al-Mousily
حالات مزید بگڑ سکتے ہیں
عراقی حکومت نے بغداد کے ساتھ ساتھ تین دیگر جنوبی شہروں میں بھی غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ملک بھر میں مظاہرے پھیلتے جا رہے ہیں۔ دارالحکومت کے نواح میں ہوائی اڈے کے قریب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق اور ایران کی سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mizban
9 تصاویر1 | 9
جرمن گرین پارٹی کے تھنک ٹینک ادارے ہائنرش بؤل فاؤنڈیشن سے وابستہ مشائل الواریز کئی برس سانتیاگو میں رہے ہیں۔ مشائل کے مطابق موجودہ صدی کے اوائل میں لاطینی امریکی ملکوں میں سماجی ترقی ہوئی لیکن اب ایکواڈور اور ارجنٹائن سمیت خطے کے کئی حکومتیں خسارے میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''حکومتیں ٹیکس نظام اور منظم ٹیکس اصلاحات پر توجہ نہیں دے رہیں۔‘‘
احتجاج کا سلسلہ خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے؟
اکثر سماجی ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ہیسے کے خیال میں اگر ایسا ہوتا تو ارجنٹائن کے عوام بھی اب تک سڑکوں پر نکل چکے ہوتے۔
چلی کے قدامت پسند تھنک ٹینک 'لبرٹاڈ ڈیسارولو‘ سے وابستہ بیٹینا ہورسٹ لاطینی امریکی ممالک میں عدم استحکام کی ذمہ داری بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر ڈالتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''جب وہ ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل نہیں کر پاتیں تو تشدد کی راہ اختیار کر کے اقتدار میں آنا چاہتی ہیں۔‘‘
تاہم الواریز اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکا کے زیادہ تر عوام اب امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج سے تنگ آ چکے ہیں۔