لاطینی امریکہ کا یورپ کی طرح ایک مشترکہ کرنسی کا خواب
9 جون 2022
لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کو خراب اقتصادی صورت حال، بہت زیادہ افراط زر اور کرنسی مارکیٹوں میں سٹے بازی کا سامنا ہے۔ اسی لیے اب اس براعظم میں یورپ کی طرح ایک نئی کثیر الملکی مشترکہ کرنسی کے اجرا کی حمایت کی جا رہی ہے۔
اشتہار
ریال، بولیوار اور پیسو، یہ سب مختلف لاطینی امریکی ممالک کی قومی کرنسیاں ہیں۔ اس پورے خطے میں ادائیگیوں کے لیے زیر استعمال ذرائع بھی اتنے ہی متنوع ہیں، جتنی اس براعظم کی ریاستوں کی ثقافتیں۔ اس بہت بڑے خطے میں ایک مشترکہ کرنسی کے ممکنہ اجرا کے حق میں اٹھنے والی آوازیں اب بلند تر ہوتی جا رہی ہیں۔
لوئس لولا ڈی سلوا برازیل میں ہونے والے آئندہ صدارتی الیکشن کے امیدوار ہیں۔ ان کے لیے مستقبل میں ایک مشترکہ کرنسی اپنانا اس پورے خطے کے لیے اس کی آزادی اور مالیاتی خود مختاری کا معاملہ ہے۔ انہوں نے ابھی حال ہی میں کہا تھا، ''خدا نے چاہا، تو ہم لاطینی امریکہ کے لیے ایک مشترکہ کرنسی جاری کریں گے کیونکہ ہمیں صرف امریکی ڈالر پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
کیا ایسا ممکن ہے؟
لولا ڈی سلوا ماضی میں 2003ء سے لے کر 2011ء تک برازیل کے صدر رہ چکے ہیں۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ انہوں نے لاطینی امریکہ کے لیے جس نئی مشترکہ کرنسی کے اجرا کی حمایت کی، وہ محض ان کی صدارتی انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے کا ایک سیاسی نعرہ تھا یا وہ اس بارے میں واقعی بہت سنجیدہ ہیں۔
بات کچھ بھی ہو، یہ امر طے ہے کہ لولا ڈی سلوا نے جو کچھ کہا، وہ اس حوالے سے پہلے ہی سے جاری بحث کا تسلسل ہے۔ اس خیال کی حمایت کے ساتھ ساتھ اس امکان کے بارے میں کئی حلقے شبہات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ مثلاﹰ برازیل کے سابق صدر ڈی سلوا کے اس بیان کے بعد ارجنٹائن کی ایک معروف بزنس ویب سائٹ 'ایل ڈیسٹاپے‘ نے اپنے ایک تجزیے میں یہ سوال بھی پوچھ لیا: ''پورے لاطینی امریکہ کے لیے ایک مشترکہ کرنسی، کیا یہ ممکن بھی ہے؟‘‘
کرنسی جس کا نام 'جنوب‘ ہو سکتا ہے
لاطینی امریکہ کے لیے کسی مشترکہ کرنسی کا تصور کوئی نئی بات نہیں۔ برازیل میں ساؤ پاؤلو کے سابق میئر اور بائیں بازو کی ورکرز پارٹی کے ملکی صدر کے عہدے کے لیے ایک سابق امیدوار فیرنانڈو حداد نے تو جریدے 'فولہا‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں یہ تجویز بھی دے دی کہ نئی مشترکہ کرنسی کا نام sur ہو سکتا ہے، جس کا مطلب 'جنوب‘ ہے۔
مستقبل کا راستہ آسان نہیں ہو گا
براعظم یورپ میں یورپی یونین کی جاری کردہ اور یورو زون میں زیر استعمال مشترکہ کرنسی یورو کی طرح لاطینی امریکہ کے لیے بھی ایسی ہی کسی مشترکہ کرنسی کے تصور کی حمایت کرنا تو آسان ہے، مگر عملی طور پر اس راستے پر مل کر آگے بڑھنا کافی مشکل بھی ہو گا۔
اس بارے میں ریو ڈی جنیرو کی فیڈرل یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ژاک دادیسکی کہتے ہیں کہ اگر اس خطے کی مختلف ریاستوں کے مابین پائے جانے والے تاریخی اختلافات اور رقابتوں ہی کی بات کی جائے، تو کسی مشترکہ کرنسی کا اجرا بہت آسان تو بالکل نہیں ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر صرف ارجنٹائن اور برازیل جیسی ہمسایہ ریاستوں کی ہی مثال لی جائے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسی کسی منزل تک پہنچنے کے لیے برسوں کی مسافت درکار ہو گی۔ ژاک دادیسکی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اس خطے کے لیے مشترکہ کرنسی کے اجرا سے متعلق ابتدائی مذاکرات ہی میں کئی برس لگیں گے، تاکہ خطے کی ریاستوں کو مستقبل کے پارٹنر ممالک بنایا جا سکے۔‘‘
لاطینی امریکی اقتصادی خطہ
ساؤ پاؤلو میں 'آکین ٹیک‘ بینک کے ماہر اقتصادیات لیاندرو دیاس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''ابھی ہمیں سب کچھ دیکھتے رہنے کے ساتھ ساتھ ساتھ انتطار بھی کرنا ہو گا۔ اس وضاحت کے لیے کہ مشترکہ کرنسی کا یہ خیال کچھ ممالک میں سیاسی انتخابی مہمات کے بعد تک موجود بھی رہتا ہے کہ نہیں۔‘‘
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔
لیاندرو دیاس کے الفاظ میں Mercosur کے نام سے قائم کردہ اقتصادی خطہ پہلے ہی یہ کام تو کر چکا ہے کہ لاطینی امریکی ریاستوں کو معاشی حوالے سے ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور ان کے مابین اشتراک عمل کو بڑھایا جائے۔ لیکن اس بلاک کی رکن زیادہ تر ریاستیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ وہ اپنی آزادی اور مالیاتی خود مختاری بھی قائم رکھیں۔‘‘
اشتہار
ادائیگیوں کا ڈیجیٹل ذریعہ
فیرنانڈو حداد کے مطابق لاطینی امریکہ میں نئی مشترکہ کرنسی سے اس پورے خطے کے ممالک کے مابین تجارت کو مزید بہتر بنایا جا سکے گا۔
ان کی رائے میں اس کرنسی کے لیے ادائیگیوں کے ڈیجیٹل ذریعے کے طور پر خطے کے ایک نئے، کثیر القومی مرکزی بینک کی طرف سے نگرانی بھی لازمی ہو گی۔
امریکی ڈالر کی چھپائی کا نگران ادارہ بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ ہے۔ یہ امریکی حکومتی ادارہ گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں سے ملکی کرنسی ڈالر چھاپنے کا ذمہ دار ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
دولت کی فیکٹری
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ (BEP) امریکا میں ڈالر کی چھپائی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے مرکزی دفتر کا سامنے والا حصہ پرانی وضع کے کسی قلعے جیسا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر کلاک
ڈالر کی چھپائی کے کمرے کو دیکھنے کے لیے سالانہ بنیاد پر دس لاکھ افرد آتے ہیں۔ ان افراد کو خصوصی نگرانی میں اس کمرے سے گزارا جاتا ہے۔ اس عمارت میں ایک بڑی جسامت کا گھڑیال بھی نصب ہے۔ اس کے ہندسے بھی ڈالر نوٹ سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
سبز رنگ اور ڈالر
امریکی ڈالر کی سکیورٹی کا سب سے اہم پہلو سبز رنگ ہے۔ اس رنگ کی تیاری انتہائی سخت سکیورٹی میں کی جاتی ہے۔ یہ طریقہٴ کار کُلی طور پر اِس امریکی ادارے کے کنٹرول میں ہے۔ اس ادارے کے ملازم ایڈ میجا ایک ایسے شخص ہیں، جو اس سبز رنگ بنانے کے ماہر ہیں۔ یہ نوٹ پر ابھری ہوئی چھپائی کے نگران بھی ہیں۔ اُن کے زیر کنٹرول مشین ایک گھنٹے میں امریکی ڈالر والی دس ہزار شیٹس پرنٹ کرتی ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر چھپائی کی نگرانی
امریکی ڈالر کی طباعت کے ماہر انسپیکٹر ہمہ وقت نگرانی کرتے ہیں۔ ایک امریکی ڈالر کو طباعت کے بعد تین دن خشک ہونے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ چھپائی کے بعد انہیں ایک انتہائی محفوظ گودام میں رکھا جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 560 ملین نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ ایک ڈالر کی چھپائی کا خرچہ 3.6 سینٹ ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر کی چھپائی اور چار آنکھوں کا اصول
ایک ڈالر کی چھپائی کو معیاری قرار دینے کے لیے سخت اصول وضع کیے گئے ہیں۔ ہر سکیورٹی علاقے میں کوئی بھی شخص اکیلے کام نہیں کرتا۔ بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے ایک ملازم کی سالانہ اوسط تنخواہ ترانوے ہزار ڈالر ہے۔ یہ اوسط امریکی تنخواہ سے دوگنا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
نوٹ پر نمبر کا اندراج
امریکی ڈالر کی چھپائی کا آخری مرحلہ اُس پر سیریل نمبر پرنٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ نمبر ڈالنے والی مشین ہاتھ سے استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
امریکی ڈالر کے ڈبے
امریکی ڈالر کو گنتی کئی مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ آخری گنتی کے بعد دس بنڈل کو انتہائی سخت پلاسٹک کے اندر رکھا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان کو ایک ٹرالی پر رکھ کر منتقل کرنا بھی بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے ملازم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ امریکا کے مرکزی بینک کو نئے چھپے ہوئے ڈالر کی حتمی ترسیل تک اُس کا سیریل نمبر خفیہ رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
سکیورٹی پر کوئی سمجھوتا نہیں
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کا سکیورٹی عملہ دو ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہ اس چھپائی مرکز کے مختلف مقامات پر ہمہ وقت نگرانی کی جاتی ہے۔ ساری عمارت کی سکیورٹی انسانوں کے علاوہ خصوصی نظام سے بھی کی جاتی ہے اور اس کو روکنے یا سارے دفتر کو تالہ بند کرنے کے لیے صرف ایک سرخ بٹن کو دبانا درکار ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
عملے کے افراد بھی ہنسی مزاح کرتے ہیں
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے عملے کے افراد جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مزاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے آنیا اسٹائن بوخ اور مشیل ماریک نے اس ادرے کا دورہ کیا تھا۔
برازیل کے یہ سابق صدارتی امیدوار کہتے ہیں کہ ایسے کسی امکان سے متعلق عملی ہیش رفت کے لیے سب سے پہلے تو خطے کی ریاستوں کو پہلا قدم اٹھاتے ہوئے عوامی سطح پر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کرنا ہو گا، تا کہ اس کے بعد مذاکراتی عمل کی ابتدا ہو سکے۔
مادورو بھی مشترکہ کرنسی کے حامی
وینزویلا کے سوشلسٹ صدر نکولاس مادورو بھی ایک مشترکہ علاقائی کرنسی کے اجرا کے حامی ہیں۔ وینزویلا کو کئی برسوں سے مسلسل بہت زیادہ افراط زر کا سامنا ہے اور صدر مادورو نے حال ہی میں ایک بار پھر لاطینی امریکہ کے لیے مشترکہ کرنسی کے تصور کی حمایت کی تھی۔
نکولاس مادورو کے خیال میں لاطینی امریکہ کے لیے علاقائی سطح پر مالی ادائیگیوں کا کوئی بھی نیا، مشترکہ ڈیجیٹل ذریعہ اس پورے خطے کے امریکی ڈالر پر انحصار کو ختم کر دے گا۔
روپیہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کی کرنسی بھی ہے۔ تاہم ان میں ہر ایک ملک کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مختلف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کن ممالک میں روپیہ زیر گردش ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
پاکستان
برصغیر کی تقسیم کے فوری بعد پاکستان نے برطانوی دور کے نوٹ اور سکے ہی استعمال کیے، صرف ان پر پاکستان کی مہر لگا دی گئی۔ تاہم 1948سے پاکستان میں نئے نوٹ اور سکے بننے لگے۔ پاکستانی نوٹوں پر میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوتی ہے۔
تصویر: AP
بھارت
روپیہ سنسکرت کے لفظ روپيكم سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چاندی کا سکہ۔ روپے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکومت کے روپیہ کے علاوہ کئی ریاستوں کی اپنی کرنسیاں بھی تھیں۔ لیکن 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد روپے کو پورے ملک میں بطور کرنسی لاگو کر دیا گیا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
سری لنکا
سری لنکا کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہی ہے۔ 1825میں برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی سرکاری کرنسی بنا۔ اس سے پہلے وہاں سيلونيج ركسڈلر نام کی کرنسی چلتی تھی۔ انگریز دور میں کئی دہائیوں تک برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی کرنسی بنا رہا جسے اس وقت سیلون کہا جاتا تھا۔ لیکن یکم جنوری 1872 کو وہاں روپیہ سرکاری کرنسی کے طور پر اپنایا گیا۔
بھارت کے پڑوسی ملک نیپال کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہے جو 1932 سے زیر استعمال ہے۔ اس سے پہلے وہاں چاندی کے سکے چلتے تھے۔ نیپال میں سب سے بڑا نوٹ ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
ماریشس
ماریشس میں پہلی بار 1877 میں نوٹ چھاپے گئے تھے۔ شروع میں وہاں پانچ، دس اور 50 روپے کے نوٹ چھاپے گئے۔ تاہم 1919 سے ایک روپے کے نوٹ بھی چھاپے جانے لگے۔ ماریشس میں بڑی تعداد میں ہندوستانی نژاد لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے کسی بھی نوٹ پر اس کی قیمت بھوجپوری اور تامل زبان میں بھی درج ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
انڈونیشیا
انڈونیشیا کی کرنسی رُپياه ہے جس کا اصل روپیہ ہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے کم قدر ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں بڑی مالیت کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا نوٹ ایک لاکھ رپياه کا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Indahono
سیشیلز
بحر ہند کے ایک جزیرے پر مشتمل ملک سیشیلز کی کرنسی بھی روپیہ ہی ہے۔ وہاں سب سے پہلے روپے کے نوٹ اور سکے 1914میں چھاپے گئے تھے۔ سیشیلز بھی پہلے برطانوی سلطنت کے تابع تھا۔ 1976میں اسے آزادی ملی۔ سمندر میں بسا یہ ملک اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
7 تصاویر1 | 7
سیاسی پہلو
لاطینی امریکہ میں مشترکہ کرنسی کے ممکنہ اجرا کا ایک سیاسی پہلو بھی ہو گا۔ اسی طرح جیسے یورپی یونین میں یورو کی وجہ سے دیکھنے میں آیا تھا۔ اس حوالے سے لاطینی امریکہ کا، جسے براعظم جنوبی امریکہ بھی کہا جاتا ہے، اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر ایک متحدہ اقتصادی خطے کے طور پر دیکھا جانا بھی لازمی ہو گا۔
یوں براعظم جنوبی امریکہ اقتصادی کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی متحد ہو سکے گا اور اس کی رکن ریاستیں ایک دوسرے کے قریب تر آ سکیں گی۔ اگر اس امکان پر مل کر مسلسل کام کیا جاتا رہا، تو ممکن ہے کہ مستقبل میں یورپی یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرح جنوبی امریکہ میں بھی کوئی ایسا وسیع تر اتحاد عمل میں آ سکے، جس کی کرنسی ایک ہو اور جسے 'ریاست ہائے متحدہ لاطینی امریکہ‘ کا نام دیا جا سکے۔
ٹوبیاس کوئفر، بوگوٹا (م م / ا ا)
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔