لال بیگ نیو یارک سٹی میں بھی دمے کا باعث
13 جون 2011یعنی پانچ میں سے ہر ایک بچے کو دمے کا مرض لاحق ہے۔ جبکہ دیگر علاقوں میں دمے کے شکار بچوں کی شرح تین فیصد بتائی جاتی ہے۔ ماضی میں دمے کی بیماری کی وجہ ان علاقوں کا بہت زیادہ گنجان ٹریفک، صنعتی فُضلہ اور دیگر ماحولیاتی آلودگی سمجھی جاتی تھی۔ نیو یارک میں قائم کولمبیا یونیورسٹی کے محققین نے پتا لگایا ہے کہ شہر کے ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والے ایسے بچے جنہیں دمہ کا مرض ہے ان کے خون میں کاکروچ یا لال بیگ کے پروٹین پر قابو پانے کے لیے موجود اینٹی باڈیز قریب دوگنا تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا سابقہ مسلسل اس کیڑے سے پڑتا رہتا ہے اور ان کے اندر اس کے خلاف الرجی پائی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ان علاقوں کے گھروں میں بچوں کے اندر دمے کی بیماری کی بڑھی ہوئی شرح سے پتہ لگا ہے کہ گھروں کے اندر پائی جانے والی گرد میں وہ اینٹی جین پایا جاتا ہے جو الرجی کا باعث بنتا ہے اور یہ حساسیہ کاکروچ یا لال بیگ پیدا کرتے ہیں۔ اس ریسرچ کی رپورٹ کے مصنف ماتھیو پرسانووسکی کے بقول’الرجی کا باعث بننے والے لال بیگ کے حساسیے یا اینٹی جین دمے کی مختلف انواع کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور یہ نیو یارک جیسے شہر کے ماحول میں بھی پایا جا سکتا ہے‘۔
یہ رپورٹ جرنل آف الرجی اینڈ کلینیکل امیونولوجی میں شائع ہوئی۔ اس سلسلے میں ماتھیو پرسانووسکی اور اُن کی ٹیم نے 239 ایسے گھروں کا دورہ کیا جہاں سات سے آٹھ سال کی درمیانی عمر کے بچوں کی نصف تعداد ایسے علاقوں میں رہتی تھی جہاں دمے کے شرح بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔
اس سے قبل منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ بچپن میں دمے کی بیماری جن بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے ان کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ تاہم ماہرین نے تنخواہوں کے اثرات سے قطع نظر اپنے تحقیقی مطالعے میں متوسط آمدنی والی ہیلتھ انشورنس کے حامل گھرانوں کو شامل کیا۔ ان فیملیز میں نصف سے زیادہ تعداد میں بچوں کے اندر دمے کا مرض پہلے سے ہی موجود تھا۔ اس ریسرچ کے دوران ماہرین نے گھر گھر جا کر بچوں کے بستروں سے گرد جمع کی اور پھران کے خون کا نمونے بھی لیے۔ اس کے بعد انہوں نے طبی ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ دمے کا مؤجب بننے والے الرجینز پر کون کون سی اینٹی بائیوٹکس اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ ان الرجینز یا حساسیے کا تعلق کتوں، بلیوں، چوہوں، جوُں، لال بیگ کی پروٹین اور گرد سے ہے۔ ماتھیو پرسانووسکی کے مطابق لال بیگ ایسے پروٹین جگہ جگہ چھوڑتے ہیں جوانسانوں کے عمل تنفس کے ذریعےاُن کے اندر پہنچتا ہے اور دمے کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسراعوان