سن 2015 میں شام سے جرمنی ہجرت کرنے والے ایک خاندان میں لاما سلیمان بھی شامل تھی۔ تب وہ چار برس کی تھی۔ اب وہ خود کو شامی کم اور زیادہ جرمن خیال کرتی ہے۔
اشتہار
سن 2015 وہ سال تھا جب لاکھوں تارکین وطن جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک پہنچی تھے۔ ان مہاجرین میں زیادہ تر کا تعلق جنگ زدہ اور تنازعات کے شکار ملکوں سے تھا۔ کئی افراد نے اپنے ملکوں میں پائی جانے والی غربت سے نجات پانے کے لیے بھی ہجرت کی تھی۔ انہی میں شام کی خانہ جنگی سے بچ کر نکلنے والا لاما سلیمان کا خاندان بھی تھا۔ جب اس کے خاندان نے یہ مشکل سفر اختیار کیا تب وہ صرف چار برس کی تھی۔
اب لاما سلیمان تقریباً نو سال کی ہونے والی ہے۔ وہ ایک اسکول میں داخل ہے۔ وہ اپنے سات سالہ بھائی جُود اور دو دیگر چھوٹے بھائیوں کے ساتھ جرمن زبان میں گفتگو کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہے۔ اس کی زبان پر مہارت کئی مہاجرین سے زیادہ ہے اور وہ اپنے والدین کی بھی زبان سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ جب عربی میں گفتگو کرتی ہے تو اس میں بھی وہ کئی جرمن الفاظ شامل کرنے سے گریز نہیں کرتی۔
لاما سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ اس کا ملک کونسا ہے تو اس نے کہا،’’ میں تو جرمن ہوں اور بس تھوڑی سی شامی‘‘۔ سن 2015 میں جب اس کے والدین نے ہجرت کا سفر اختیار کیا تو وہ چار برس کی اور بھائی جُود دو سال کا تھا۔ اس کے ایک اور بھائی کَرم کی عمر دس ماہ تھی۔ تیسرا بھائی سام تو پیدا ہی جرمنی میں ہوا ہے۔ سن 2015 میں چار سالہ لاما صرف عربی زبان بول سکتی ہے۔ لاما کی والدہ نے روتے ہوئے بتایا کہ جرمنی پہنچنے کا خطرناک سفر رات کے وقت ترکی سے ایک چھوٹی سی ربڑ کی کشتی پر سوار ہو کر شروع کیا تھا۔ بحیرہ روم سے گزر کر وہ یونان پہنچے اور وہاں سے یہ خاندان مقدونیہ، سربیا، کروشیا اور ہنگری سے آسٹریا اور پھر جرمن سرزمین پر پہنچ گیا۔
لاما سلیمان کو اس سارے سفر کی تکالیف اور مشکلات یاد بھی نہیں ہیں بلکہ اس کے دماغ میں شام بھی دھندلانے لگا ہے۔ اسے وہاں کے انتہائی خطرناک حالات بارے بھی اب کوئی معلومات نہیں لیکن اس کے والدین خوفناک بمباری اور دھماکوں کو یاد کر کے اب بھی لرز اٹھتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ویسے بھی شام لاما کے والدین کا ملک ہے اور وہاں اس کے بعض قریبی رشتہ دار اب بھی گزر بسر کر رہے ہیں۔
لاما کے والدین کو آج کل ایک اور پریشانی کا سامنا ہے اور وہ گزشتہ چار برسوں سے جرمن دارالحکومت برلن میں ایک اپارٹمنٹ تلاش کر رہے ہیں تا کہ ان کے بچوں کو اسکول تک جانے میں آسانی ہو۔ لاما کو ریاضی کا مضمون بہت پسند ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اسکولوں میں براہِ راست تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے سے لاما کی بعض مضامیں میں کمزوری آڑے آئی اور ٹیچر نے اسے اگلی کلاس میں پاس نہیں کیا۔ اس طرح لاما کو دوبارہ سے دوسری جماعت پڑھنا پڑے گی۔ ٹیچر کے اس فیصلے سے لاما اور اس کے والدین کو بہت دکھ ہوا لیکن اب سب معمول پر آ چکا ہے۔ لاما کی پریشانی یہ بھی تھی کہ وہ اور اس کا چھوٹا بھائی جُود اب ایک ہی کلاس میں ہیں۔ وہ بڑے ہو کر دانتوں کی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔
شامی مہاجرین کا ترکی میں نئی زندگی کا آغاز
ترکی کے شہر ازمیر میں امدادی گروپوں اور رضاکارانہ طور پر سرگرم کارکنوں کی مدد سے شامی مہاجرین نے اپنا کاروبارِ زندگی نئے سرے سے شروع کیا ہے۔ ترکی کا یہ بندرگاہی شہر شام کے پچاسی ہزار مہاجرین کا مسکن ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شامی مہاجرین کی بڑھتی کاروباری سرگرمیاں
ازمیر کا علاقہ بسمانے، انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے اور یہاں مہاجرین کی ملکیت اسٹورز اور ریستوران کی تعداد شامی مہاجرین کے آنے کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے۔ شامی مہاجرین زیادہ تر کاروبار اپنے ترک دوستوں کے نام پر کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بے روزگار اور بے یار و مددگار
مہاجرین کے لیے بلوں کی ادائیگی ایک مسئلہ ہے۔ زیادہ تر بے روزگار افراد کیفے میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تو صحت کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک جرمن لڑکی لیا ولمسن ان افراد کو مفت یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود جگہ اور مسائل
لیا ولمسن کو اس کام میں ایک مترجم بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ولمسن بسمانے میں مہاجرین کے گھروں میں جاتی ہے۔ اس تصویر میں وہ دو خواتین سے بات کر رہی ہے ، جن کے بچے نظام تنفس کے مسائل کا سامنا ہے۔ ولمسن کے بقول چھوٹے سے کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے کمروں میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بچے اور روزگار
اس علاقے میں لائف جیکٹس عام دکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں اور بچے بھی یہیں کھیلتے ہیں۔ ازمیر میں موجود مہاجر بچے باقاعدگی سے اسکول نہیں جاتے بلکہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرایہ اور بلوں کی ادائیگیوں میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مہاجر کیمپوں کا قیام
ییلسن یانک یونین کے سابقہ ملازم ہیں۔ وہ آج کل ایک ایسی عمارت میں تزئین و آرائش کا کام کر رہے ہیں، جسے مکمل ہونے کے بعد مہاجرین کا ایک مرکز بنا دیا جائے گا۔ ییلسن یانک کے بقول’’ مجھے مہاجرین کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
خود انحصاری
اطالوی نژاد ایک برطانوی رضاکار کرس ڈولنگ بھی ییلسن یانک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین کی مدد کرنا بہت ضروری ہے۔’’ ہم نہیں چاہتے لوگ صرف امداد پر ہی انحصار کریں۔ ہم انہیں معاشرے میں ضم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
جگہ کی کمی
یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والی امدادی تنظیم ’میرسی کورپس‘ نے ازمیر میں اپنا ایک دفتر کھولا ہے۔ یہاں پر مستحق مہاجر خاندانوں میں پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور انہیں مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم بہت کم کرائے پر گھر بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسمگلروں کا اڈہ
امدادی کارکنوں اور تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود زیادہ تر مہاجرین ازمیر انسانی اسمگلروں کی تلاش میں آتے ہیں۔ انتظامیہ اسمگلروں اور شہریوں کے مابین رابطوں کو روک نہیں پا رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محفوظ راستہ
یہ یونانی جزیرہ کی اوس کی تصویر ہے۔ ترک علاقے سیسما سے یہ یونانی ساحل زیادہ دور نہیں ہے۔ یورپ جانے کے خواہشمند مہاجرین زیادہ تر بحیرہ ایجیئن کو یہیں سے پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔