تبتی بودھوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نےبدھ کے روز اس بات کی تصدیق کردی کہ ان کی وفات کے بعد ان کا جانشین ہو گا۔ ان کے بعض بیانات سے جانشین کے متعلق اب تک تذبذب کی صورت حال تھی۔
دلائی لامہ 1959 میں تبت سے فرار ہونے کے بعد سے بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیںتصویر: Ashwini Bhatia/AP Photo/picture alliance
اشتہار
دلائی لامہ نے اپنی 90 ویں سالگرہ سے کچھ دن پہلے بدھ کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا جانشین ہو گا۔ وہ بھارت کے شہر دھرم شالہ میں، جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، روحانی پیشواؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے بدھ کو کہا کہ بدھ مت کا 'لامہ‘ یعنی روحانی پیشوا کا ادارہ ان کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔
بھارت کے پہاڑی قصبے دھرم شالہ سے تبتی زبان میں نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا ''میں اس بات کی تصدیق کر رہا ہوں کہ دلائی لامہ کا ادارہ جاری رہے گا۔‘‘
نوبل امن انعام یافتہ دلائی لامہ ہمالیائی قصبے میں مذہبی رہنماؤں کے اجلاس کے آغاز پر خطاب کر رہے تھے، جہاں وہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔
دلائی لامہ 1959 میں چینی حکمرانی کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد تبت کے دارالحکومت لہاسا سے فرار ہو گئے تھے۔ تب سے وہ بھارت میں مقیم ہیں، جہاں تبت کی جلاوطن حکومت بھی قائم تھی۔
دنیا بھر میں دلائی لامہ کو عدم تشدد، ہمدردی اور چینی حکمرانی کے خلاف تبتی جدوجہد کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہےتصویر: Ashwini Bhatia/dpa/AP/picture alliance
یہ فیصلہ اہم کیوں ہے؟
جب سے 'لامہ‘ کا یہ ادارہ 1587 میں شروع ہوا تینزن گیاتسو چودہویں دلائی لامہ ہیں۔
اشتہار
تبتی بدھسٹ انہیں 'رحمدلی کے بودھی ستوا‘ کا اوتار مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا شخص اس جسم کا انتخاب کر سکتا ہے جس میں وہ دوبارہ جنم لینا چاہتا ہے۔
بدھ مت میں، 'بودھی ستوا‘ کا مطلب ایک روشن خیال وجود ہے جس نے دوسروں کی مدد کے لیے ’زندگی کے چکر‘ میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں دلائی لامہ نے کہا کہ انہیں تبت، منگولیا، روس اور چین کے کچھ حصوں اور اس سے آگے کے بدھ مت کے ماننے والوں کی جانب سے ادارے کے تسلسل کو یقینی بنانے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا، ''خاص طور پر، مجھے تبت میں تبتیوں کی طرف سے مختلف چینلز کے ذریعے پیغامات موصول ہوئے ہیں، جس میں یہی اپیل کی گئی ہے۔‘‘
دلائی لامہ کی طرف سے بدھ کے روز اس اعلان نے برسوں کی ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ کر دیا کہ چودہویں دلائی لامہ اس عہدے پر فائز ہونے والے آخری فرد ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کے اوتار کو تسلیم کرنے کا واحد اختیار دلائی لامہ کے قائم کردہ گڈن فوڈرنگ ٹرسٹ کے پاس ہو گا۔
دلائی لامہ نے کہا، ''انہیں اس کے مطابق تلاش اور شناخت کے طریقہ کار کو ماضی کی روایت کے مطابق انجام دینا چاہیے... کسی اور کے پاس اس معاملے میں مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘
سارناتھ: وہ مقام جہاں بدھ مذہب کا جنم ہوا
07:49
This browser does not support the video element.
دلائی لامہ دنیا کی نگاہ میں
دنیا بھر میں دلائی لامہ کو عدم تشدد، ہمدردی اور چینی حکمرانی کے خلاف تبتی جدوجہد کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
سن دو ہزار تیئیس میں ایک بچے کے ہونٹوں پر چومنے پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے انہوں نے بعد میں معافی مانگ لی تھی۔
چین انہیں ایک علیحدگی پسند اور باغی کے طور پر دیکھتا ہے۔ جلاوطن تبتی اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ چین تبت کے خود مختار علاقے پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں دلائی لامہ کے اپنے پسندیدہ جانشین کا منظر عام پر لاسکتا ہے۔
دلائی لامہ نے پہلے کہا تھا کہ ان کا جانشین چین سے باہر پیدا ہو گا، اور پیروکاروں پر زور دیا کہ وہ بیجنگ کے منتخب کردہ کسی بھی 'لامہ‘ کو مسترد کردیں۔
امن کے پیامبر گوتَم بُدھا
بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کوامن کا پیامبر کہا جاتا ہے۔ لیکن دو پڑوسی ممالک بھارت اور نیپال کے درمیان اس بات پر تکرار ہوگئی ہے کہ گوتم بدھاکا تعلق دونوں میں سے کس ملک سے ہے اوران کی وراثت کا اصل حقدار کون ہے؟
تصویر: J. Mohsin
گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت؟‘
نیپال اور بھارت میں تنازع اس وقت پیدا ہوگیا جب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ’گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت‘قرار دے دیا۔ لیکن نیپالی وزیر اعظم نے انہیں یاد دلایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹھمنڈو کے دورے کے دوران تسلیم کیا تھا”نیپال وہ سرزمین ہے جہاں دنیا میں امن کے پیامبر گوتم بدھا پیدا ہوئے تھے۔“
تصویر: J. Mohsin
بودھ گیا اور لمبنی میں سے کون اہم؟
تاریخی شواہد کے مطابق بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کی پیدائش نیپال کے لمبنی شہر میں ایک راج گھرانے میں ہوئی۔ لیکن وہ دنیاکی بے ثباتی سے مایوس ہو کراپنا گھر بار چھوڑ کر خدا کے عرفان کی تلاش میں نکل پڑے اورسفر کرتے ہوئے بھارتی صوبے بہار کے ایک غیر آباد علاقے بودھ گیا پہنچ گئے۔ جہاں ان کی یاد میں یہ مہابودھی مندر قائم ہے۔
تصویر: J. Mohsin
’نروان حاصل ہوگیا‘
کہا جاتا ہے کہ اسی ’بودھی درخت‘کے نیچے انہوں نے چھ برس تک مراقبہ کیا اور سخت مجاہدے کے بعدان پریہ حقائق منکشف ہوئے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے۔اس برگد کے درخت کوبودھ مت میں انتہائی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔ چند برس قبل کسی ’عقیدت مند‘ نے اس کی شاخ توڑ لی تھی جس کے بعد حفاظت کے لیے اس کے گرد لوہے کا حصار بنادیا گیا ہے۔
مقدس نشان
بودھ گیا صوبہ بہار کے تاریخی شہر گیا سے 15کلومیٹر دور ہے۔ یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں اور نشانیاں موجود ہیں۔ گوتم بدھا نے اپنی تعلیمات کے فرو غ کے لیے 44 برس تک پورے بھارت کے دورے کیے۔ 80 برس کی عمر میں 384ق م میں ان کی موت ہوئی۔ مہابودھی مندر میں واقع اس نشانی کو گوتم بدھا کے پاوں کا نشان بتایا جاتا ہے۔
تصویر: J. Mohsin
ہرشخص تارک دنیا نہیں ہوسکتا
بودھ مت کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا۔ اس لیے جیسے جیسے معتقدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر جلد ہی گوتم بدھا نے محسوس کر لیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہو سکتاہے لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کر دیا۔
تصویر: J. Mohsin
ذا ت پات کا چکر
بودھ مت بھی اونچ نیچ اور ذات پات سے محفو ظ نہیں ہے۔ یہ اختلافات گوتم بدھا کی زندگی میں اسی وقت پیدا ہوگئے تھے جب انہوں نے ایک بھنگی کو اپنی جماعت میں داخل کرلیا تھا۔ذات پات کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل باعث نزاع بن گئے جس کی وجہ سے گوتم بدھ کی موت کے بعد بدھ مت کے ماننے والے مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کے ماننے والے 535 ملین
بودھ مت کے ماننے والے آج دنیاکے بیشتر ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ دلائی لامہ ان کے اعلی ترین مذہبی پیشوا ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں بودھ مت کے ماننے والوں کی تعداد 535 ملین کے قریب ہے۔ بھارت میں ان کی تعداد 92 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کا زوال
گوتم بدھا کی وفات کے بعد بودھ مت پانچ سو سال تک مسلسل ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ بھارت کے علاوہ افغانستان، چین، برمااور مشرقی جزائر میں پھیل گیا۔ اور ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا۔ بھارت میں اس کے پیروؤں کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی۔ بھارت میں آئینی طور پر تسلیم شدہ چھ مذہبی اقلیتوں میں بودھ بھی شامل ہیں۔
تصویر: J. Mohsin
بودھوں کا قتل عام
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں بودھ مت کے زوال کی بنیادی وجہ برہمنوں کی مخالفت تھی کیوں کہ وہ اسے ہندو دھرم کی ترقی کے خلاف سمجھتے تھے لہذا پہلے تو بودھ مت کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی پھر بودھوں کے خلاف مہم چلاکر بڑے بے دردی سے ان کا قتل عام کیا گیا۔
تصویر: J. Mohsin
چار بنیادی باتیں
بودھ مت میں چار بنیادی باتوں پر زور دیا جاتا ہے۔ اول زندگی دکھ ہی دکھ ہے۔ دوئم دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔سوئم خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے اور چہارم خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چاہیے۔ اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم، راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی وجد شامل ہیں۔
تصویر: J. Mohsin
بودھ مت کا احیاء
بودھ مت کو آج کل اہنسا اور امن کے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں تیز ہورہی ہیں۔ یوں تو دنیا کے بیشتر ملکوں میں بودھ مت کے ماننے والے ہیں تاہم سب سے بڑی تعداد چین میں ہے۔ تھائی لینڈ، جاپان، میانمار، سری لنکا، ویت نام، کمبوڈیا، جنوبی کوریا،بھارت اور ملائشیا میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ متن: جاوید اختر، نئی دہلی