1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لانگ مارچ سے پہلے اسلام آباد سیل کر دیا گیا

شکور رحیم، اسلام آباد13 اگست 2014

پاکستان میں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال میں فوجی مداخلت کے امکان کے رد کیے جانے کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ حالات زیادہ خراب ہونے کی صورت میں فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک امریکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اور ملک میں فوجی مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول اور فوجی قیادت میں خارجہ پالیسی سمیت تمام معاملات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حکومت کے ابھی چار برس باقی ہیں، ایسے میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

تجزیہ کارسایسی صورتحال کے پیش نظر ملک میں فوجی مداخلت کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیںتصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے منگل کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ہر قسم کے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے چودہ اگست کو مجوزہ آزادی اور انقلاب مارچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج سب کا آئینی حق ہے لیکن کسی کو بھی انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب فیصلے سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمان میں ہوں گے اور مٹھی بھر افراد کو کروڑوں لوگوں کا مینڈیٹ یرغمال بنانے نہیں دیا جائے گا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے تحریک انصاف کے مطالبے پر گزشتہ برس عام انتخابات میں دھاندلی کی چھان بین سپریم کورٹ کےججوں پر مشتمل کمیشن سے کرانے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میری حکومت سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس صاحب کو درخواست کر رہی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے تین جج صاحبان پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیں جو الزامات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے۔‘‘

تاہم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیر اعظم کے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن کے مستعفی ہونے کی صورت میں ہی سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت ہر قسم کے مذاکرات کے لیے تیار ہےتصویر: picture-alliance/dpa

تجزیہ کار اسی بگڑتی ہوئی سایسی صورتحال کے پیش نظر ملک میں فوجی مداخلت کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ ایسے ہی خدشات کے پیش نظر ملکی سپریم کورٹ نے کسی بھی ریاستی ادارے کی جانب سے ماورائے آئین اقدام کو روکنے کی ایک درخواست کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے وکلاء کی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت پندرہ اگست بروز جمعہ کے لیے مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ کامران مرتضیٰ نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ کسی بھی اتھارٹی یا ریاستی عہدیدار کی جانب سے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کیے جانے کو روکے اور انہیں کوئی ماورائے آئین اقدام بھی نہ کرنے دیا جائے۔

دریں اثناء اسلام آباد انتظامیہ نے حکومت مخالف احتجاجی مارچ سے ایک روز قبل دارالحکومت اسلام آباد کو سیل کر دیا ہے۔ اسلام آباد کو دیگر شہروں سے ملانے والی تمام مرکزی شاہراہوں کو کنٹینرز رکھ کر بلاک کر دیا گیا ہے جبکہ متبادل راستوں کو گڑھے کھود کر اور خار دار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ ریڈ زون اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موبائل فون سروس منگل کی رات سے ہی بند کر دی گئی ہے۔

تحریک انصاف کے آزادی مارچ کے آرگنائزر سیف اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود ان کے کارکن ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے لوگ چاروں صوبوں سے آ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان سے آ رہے ہیں۔ فاٹا اور اے جے کے سے آ رہے ہیں۔ سب جگہوں سے آ رہے ہیں۔ جن جگہوں پر ان کو مختلف رکاوٹوں کا اندیشہ ہے، اس کے مطابق سب لوگ بندوبست کر رہے ہیں ان کو عبور کرنے کے لیے۔‘‘

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری ںثار علی خان نے بدھ کے روز آزادی اور انقلاب مارچ پر سکیورٹی کے انتظامات سے متعلق ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر داخلہ آج ہی ایک اہم پریس کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں