لانگ مارچ کے بعد کا منظر نامہ، سیاسی بے یقینی بدستور قائم
26 مئی 2022واضح رہے کہ اس آزادی مارچ کے دوران پنجاب میں بارہ سو سے زائد تحریک انصاف کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا جبکہ ہزاروں کی تعداد مقدمات بھی درج ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ممکنہ طور پر کشیدگی بڑھے گی۔
آزادی مارچ کے بعد نون لیگ اور حکومتی حلقوں میں کسی حد تک مایوسی نظر آتی ہے اور اس کی ایک وجہ توہین عدالت کی وہ درخواست تھی جو وفاقی حکومت کی طرف سے عمران خان کے خلاف دی گئی تھی، اسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔
پاکستان: لانگ مارچ کے سبب اسلام آباد کے ریڈ زون کی حفاظت فوج کے حوالے
ناقدین کا خیال ہے عمران خان نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا اعلان کیا ہے، اس لئے کم از کم اس وقت تک بے یقینی کی صورتحال برقرار رہے گی جب تک عمران خان دوبارہ اسلام آباد نہیں آتے اور ان کے اس دوسرے مارچ کے نتائج سامنے نہیں آتے۔
کچھ مبصرین کے خیال میں حکومتی اتحاد میں دراڑ کی خبروں سے بھی اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ سیاسی استحکام ابھی شاید اتنا قریب نہیں جتنا کے حکمران طبقہ سوچ رہا ہو۔
سیاسی عدم استحکام بڑھے گا
پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار اور سابق ڈائریکٹر ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حالانکہ حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کی ووٹنگ کے حوالے سے اپنا ایک مقصد حاصل کر چکی ہے جبکہ اس کا دوسرا مقصد نیب قانون میں ترمیم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا کیونکہ عمران خان نے دوبارہ آنے کا اعلان کر دیا ہے جس سے لوگوں میں سیاسی بے یقینی بھی بڑھے گی۔‘‘
ڈاکٹر سرفراز کے مطابق کیوں کے حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات بھی کامیاب نہیں ہو رہے اس سے اس بات کا بھی امکان ہے کہ معاشی ابتری بڑھے گی۔
لانگ مارچ: ’’خطرے کی گھڑی میں سب اپنے مفاد کو دیکھ رہے ہیں‘‘
انتخابات حل ہیں
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لیے انتخابات ہی آخری حل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایک طرف تو عمران خان کے اعلانات کی وجہ سے سیاسی بے یقینی بڑھی ہے اور وہ پھر آئیں گے، جس سے اس سیاسی بے یقینی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی حکومت کو اشارہ دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہیں چل سکتے، جس سے حکومتی اتحاد میں دراڑ پڑے گی۔ اس وجہ سے حکومت کا چلنا مشکل ہوجائے گی اور ملک سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھے گا۔‘‘
کوئی سیاسی عدم استحکام نہیں ہے
تاہم ن لیگ اس تاثر کو زائل کرتی ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی عدم استحکام ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے یا جب حکمران اتحاد چاہے گا انتخابات کرائے گا۔ نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''اس مارچ سے عمران خان بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں اور ان کے یہاں آنے سے ہمارے اس بیانیے کو تقویت ملی ہے، جس میں ہم نے یہ کہا تھا کہ یہ صرف شر پھیلانے کے لیے اور فساد برپا کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ انہوں نے گلگت بلتستان خیبرپختونخوا اور دوسرے علاقوں کی ساری حکومتی مشینری استعمال کی۔ اس کے باوجود وہ چند ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر سکے۔ اب وہ حکومت کو کیا کوئی مشکل وقت دیں گے بلکہ اب ان کے لئے مشکل بات یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی پارٹی کو اکھٹا رکھ سکتے ہیں۔‘‘