1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاوارث جہاز سال بھر سمندر میں ہچکولے کھاتا آئرلینڈ پہنچ گیا

18 فروری 2020

ایک لاوارث بحری جہاز ایک سال سے بھی زائد عرصے تک بحر اوقیانوس میں ہزارہا میل کا سفر کرتا ہوا آخر آئرلینڈ کے ساحل تک پہنچ گیا۔ یہ بحری جہاز سن 2018 میں خراب ہو گیا تھا اور اس کے عملے نے اسے سمندر میں لاوارث چھوڑ دیا تھا۔

Irland Geisterschiff  MV Alta
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Irish Coast Guard

برطانیہ اور یورپ میں اتوار سولہ فروری کے روز سمندری طوفان ڈینس کے باعث ہوا کی رفتار 110 کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رہی تھی۔ آئرلینڈ کے کوسٹ گارڈز کے مطابق طوفان کے باعث اٹھنے والی لہریں اس لاوارث بحری جہاز کو آئرلینڈ کے چٹانی ساحلوں تک لے آئیں۔

ایک مشکوک بحری جہاز کے بارے میں اطلاع ملنے کے بعد کوسٹ گارڈز جب ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس 'گھوسٹ شپ‘ کا جائزہ لینے موقع پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ایم وی آلٹا نامی وہ بحری جہاز ہے، جو سن 2018 میں بحر اوقیانوس میں خراب ہو گیا تھا۔

سمندری طوفان ڈینس سے برطانیہ اورفرانس متاثر

ستمبر سن 2018 میں ڈھائی سو فٹ طویل بحری جہاز ایم وی آلٹا یونان سے ہیٹی کی طرف سفر پر تھا۔ بحر اوقیانوس کے سفر کے دوران یہ شپ برمودا جزائر سے قریب دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر خراب ہو گیا تھا۔

سمندری طوفان ڈینس کے باعث ہوا کی رفتار 110 کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رہی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/AP/M. Dunham

ایم وی آلٹا کے خراب ہو جانے کے بعد اس پر سوار عملے کے دس افراد بیس روز تک اس میں پھنسے رہے تھے۔ اس دوران ایک ہوائی جہاز کے ذریعے انہیں کھانے پینے کی اشیاء مہیا کی گئی تھیں۔ بیس دن بعد امریکی کوسٹ گارڈز انہیں ریسکیو کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

تب سے یہ لاوارث بحری جہاز بحر اوقیانوس ہی میں تھا۔ آخری مرتبہ گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں ایک برطانوی بحری جہاز نے اسے بحر اوقیانوس کے وسط میں دیکھا تھا۔

یورپ میں خطرناک سمندری طوفان: ٹرانسپورٹ معطل، سکول بند

آئرلینڈ کی کورک کاؤنٹی کے حکام کے مطابق فی الوقت اس چوالیس برس پرانے بحری جہاز سے آلودگی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ آج منگل 18 فروری کے روز سمندری لہروں کی شدت کم ہونے کے بعد اس بحری جہاز کا جائزہ لینے کے بعد ہی آئرش حکام اس شپ کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

ش ح / م م (اے ایف پی، ای بی یو)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں