لاوارث مہاجر بچوں کی تعداد دگنی سے بھی زائد، یونیسیف
14 جون 2016![Griechenland Peloponnes Touristenkomplex Flüchtlingslager](https://static.dw.com/image/19198780_800.webp)
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے حوالے سے بتایا ہے کہ اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر بحیرہ روم سے یورپ آنے والے لاوارث بچوں کی تعداد میں گزشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زائد کا اضافہ ہو گیا ہے۔
منگل چودہ جون کو جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں یونیسیف نے مہاجرت کے بحران میں بچوں کی اس حالت زار پر انتہائی تشویش ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس المیے پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
’سفر کے ہر قدم میں خطرات‘ نامی اس رپورٹ میں یونیسیف نے لکھا ہے کہ اٹلی پہنچنے والے ہر دس بچوں میں سے نو بچے اکیلے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران کم ازکم سات ہزار بچے اس سمندری سفر کے بعد اٹلی پہنچ چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر سارہ کرو نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اس وقت ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یورپ پہنچنے والے لاوارث بچوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حقائق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کے حل میں مدد مل سکے۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے اب تک دو ہزار آٹھ سو انسٹھ افراد بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں سمندر برد ہو چکے ہیں، جن میں بہت سے بچے بھی شامل تھے۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق لاوارث مہاجر بچوں کو زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ ان کا استحصال کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے بچے انسانوں کے اسمگلروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ہر اس کام پر مجبور ہو سکتے ہیں، جو انہیں کرنے کو کہا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’جو بچہ بھی اطالوی جزیروں پر پہنچا ہے، اس کے پاس سنانے کو انتہائی المناک اور لرزہ طاری کر دینے والی کہانیاں ہیں۔‘‘ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسی کئی لڑکیاں بھی ہیں، جو طویل سفر کے بعد جب اٹلی پہنچیں تو وہ حاملہ تھیں۔
یونیسیف کے مطابق ایسے بچے جن کا کوئی وارث نہیں ہے، ان کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ اس ملک میں ہوں جہاں سے وہ اپنی مہاجرت کا سفر شروع کر رہے ہوں یا ایسے ملک میں جہاں وہ پہنچ چکے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق ایسے مہاجر بچوں کو یورپی ممالک میں بھی انتہائی دیکھ بھال کی ضرورت ہے، کیونکہ انہیں تحفظ، تعلیم، صحت اور نفسیاتی مدد کی ضرورت ہر حال میں ہوتی ہے۔