لاپتہ بلاگرز کے حق اور مخالفت میں مظاہرے کے دوران جھڑپیں
19 جنوری 2017اپنے بلاگز اور فیس بک پیجز کے ذریعے پاکستانی سیاست میں فوجی کردار کو تنقید کا نشانہ بنانے اور اقلیتوں کے حق میں بولنے والے پانچ سرگرم کارکن چار جنوری سے لاپتہ ہیں اور یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟
ان کی گمشدگی کے فوراﹰ بعد ان کے خلاف سوشل میڈیا پر یہ الزامات عائد ہونا شروع ہو گئے تھے کہ یہ اپنے پیجز پر ایسا مواد شائع کرتے تھے، جو توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔
آج کراچی پریس کلب کے قریب لاپتہ بلاگرز کے حق میں مظاہرہ ہو رہا تھا کہ وہاں ایک غیر معروف مذہبی گروپ ’لبیک یا رسول اللہ‘ کے ایک سو کے قریب اراکین پہنچے اور انہوں نے نعرہ بازی کرتے ہوئے پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔ ان مذہبی مظاہرین نے ایسے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر ’توہین مذہب کرنے والوں کے سر قلم کرنے‘ جیسے نعرے درج تھے۔
لاپتہ بلاگرز کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کی حفاظت کے لیے انہیں ایک قریبی عمارت میں لایا گیا۔ پولیس افسر اورنگزیب خان کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے مذہبی گروپ کے سربراہ سے بات کی ہے اور انہیں واپس جانے کے لیے قائل کر لیا گیا ہے۔
’لوگوں کو غائب کرنا حکومت کی پالیسی نہیں‘، چوہدری نثار
لاپتہ بلاگرز کے دوست، اہلخانہ اور حمایتی اس الزام کو مسترد کرتے ہیں کہ بلاگرز نے توہین مذہب کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ان پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
پاکستانی وزارت داخلہ کے مطابق ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ان کے خلاف توہین مذہب کا کوئی کیس درج کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نثار علی خان کا کہنا تھا کہ حکومت ان کی گمشدگی کی ذمہ دار نہیں ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے تصدیق کی تھی کہ ایک وکیل کی طرف سے ان بلاگرز کے خلاف توہین مذہب کی باقاعدہ شکایت درج کروائی گئی ہے۔