1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقشمالی امریکہ

'لاکھوں افغان موت کے دہانے پر ہیں '، اقوام متحدہ کی تنبیہ

14 جنوری 2022

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے امریکا اور عالمی بینک سے افغانستان کے فنڈز کو کھولنے کی التجا کی ہے۔ ان کے مطابق ملک کو اقتصادی اور سماجی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

United Nations Generalsekretär Antonio Guterres
تصویر: John Minchillo/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ اس وقت لاکھوں افغان ''موت کے دہانے'' پر ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی انسانی امداد کے لیے بین الاقوامی برادری سے فنڈ فراہم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ افغانستان کو معاشی اور سماجی تباہی سے بچانے کے لیے اس کے منجمد فنڈز اور اثاثوں کو فوری طور پر کھولنے اور اس کے بینکنگ نظام کو پھر سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

سکریٹری جنرل نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''منجمد درجہ حرارت اور منجمد اثاثے افغانستان کے لوگوں کے لیے ایک مہلک امتزاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے تمام اصول و ضوابط اور معاشی نظام جو، ''پیسوں کو جان بچانے کے لیے استعمال ہونے سے روکتے ہیں، اس ہنگامی صورت حال میں معطل کر دینا چاہیے۔''

افغانستان کی معیشت پہلے سے ہی بیرونی انسانی امداد پر منحصر تھی تاہم جب طالبان نے اگست میں ملک پر کنٹرول حاصل کیا تو بین الاقوامی امداد رکنے کے ساتھ ہی امریکا نے اربوں ڈالر کے افغانستان کے اثاثے بھی منجمد کر دیے۔ اس سے ملک میں نقدی کی کمی کا شدید بحران پیدا ہو گیا۔  

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تقریبا ًنوے لاکھ افغان شہری فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ افغان معیشت میں فوری طور پر نقدی فراہم کرنا بہت ضروری ہے، ''تاکہ اس بحران سے بچا جا سکے جو لاکھوں لوگوں کے لیے غربت، بھوک اور بدحالی کا باعث ہو گا''۔

تصویر: © WFP/Marco Di Lauro

انہوں نے زور دیا کہ اس خراب صورت حال سے بچنے کے لیے یہ اقدامات، ''بہت ضروری ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں تو افغان موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔''

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس میں امریکا کا، ''کردار بہت اہم ہے کیونکہ دنیا کا زیادہ تر مالیاتی نظام ڈالروں میں ہی چلتا ہے۔'' انہوں نے

 کہا کہ افغانستان کے غیر ملکی ذخائر میں سے سات ارب ڈالر امریکا نے ہی منجمد کر رکھے ہیں اور یہ رقم بنیادی طور پر امریکا میں موجود ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور ریڈ کراس میں بین الاقوامی کمیٹی کے صدر پیٹر مور 14 جنوری جمعے کے روز اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کرنے والے ہیں۔

گوٹیرش نے کہا کہ اس ملاقات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ''ایسا میکانزم بنانے کی کوشش کی جائے جس سے افغان معیشت میں نقد رقوم کی مؤثر فراہمی کی اجازت دی جا سکے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں مالیاتی نظام کے لیے ایسے حالات پیدا کیے جا سکیں کہ وہ اپنی مقامی کرنسی میں بھی اچھی طرح سے کام کر سکے۔''

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ بین الاقوامی فنڈنگ کو ڈاکٹروں، صفائی ستھرائی کے کارکنوں، الیکٹریکل انجینئرز اور دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ ہی صحت، تعلیم اور دیگر اہم خدمات کی فراہمی میں افغان اداروں کی امداد کے لیے بھی مہیا کیا جانا چاہیے۔

تصویر: © UNICEF/UN0498794/UNICEF Afghanistan

انٹونیو گوٹیرش کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ، ورلڈ بینک نے تعمیر نو کے ٹرسٹ فنڈ سے یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام کو ملک میں اپنے آپریشنز چلانے کے لیے 280 ملین ڈالر کی رقم منتقل کی تھی۔

انہوں نے کہا، ''مجھے امید ہے کہ افغانستان کے لوگوں کو موسم سرما میں زندہ رہنے میں مدد کے لیے، باقی کے تقریباً سوا ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے جو وسائل درکار ہیں، وہ بھی دستیاب ہو جائیں گے۔''

افغان عوام کی حمایت کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ طالبان رہنماؤں سے بھی، ''بنیادی انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بھی فوری اپیل کر رہے ہیں۔''

ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے ملک میں وہ ایسا نظام اور ادارے قائم کرنے پر زور دیتے ہیں کہ جس میں ہر شخص اپنے آپ کو مساوی حقوق کا علمبردار محسوس کرے۔ 

گوٹیرش نے کہا کہ افغانستان بھر میں، ''خواتین اور لڑکیاں دفاتر اور کلاس روم سے غائب ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی نصف آبادی کے حقوق سے انکار کرتے ہوئے ترقی نہیں کر سکتا۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

افغانستان سے ایران: انسانی اسمگلنگ میں کئی گنا اضافہ

02:24

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں