1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاکھوں زیرِ التواء مقدمات: تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
3 جنوری 2019

پاکستان میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کی منظوری کے بعد کئی حلقوں میں یہ بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے کہ عدالتوں میں زیرِ التواء لاکھوں مقدمات کا مستقبل کیا ہے اور اس تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟

Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: Reuters/C. Firouz

واضح رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران عدالتوں سے کچھ فیصلے مدعی یا ملز م کی وفات کے بعد بھی سامنے آئے ہیں، جس میں عدلیہ مخالف عناصر نے ملک کے اعلیٰ اداروں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
پاکستان کی ایوانِ بالا کے کچھ ارکان کو حالیہ ہفتوں میں بتایا گیا کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں تین لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ء ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر نچلی عدالتوں کے زیرِ التواء مقدمات کو ملالیا جائے تو ایسے مقدمات کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ پی پی پی کے کچھ رہنماؤں نے بھی حالیہ ہفتوں میں عدالتوں پر تنقید کرنے کے لیے ان اعداد و شمار کا سہارا لیا ہے۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے از خود کارروائیوں اور انتظامی معاملات میں مبینہ مداخلت کی وجہ سے اعلیٰ اور نچلی عدالتوں میں سائل پریشانیوں کا شکار ہیں۔ لیکن وکلاء برادری ان مسائل کی ساری ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ ججوں اور عدالتی عملے کی کمی ان عوامل میں سے ہیں، جو عدالتوں میں مقدمات کی تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس کے علاوہ کئی فنی نکات بھی تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر جواب جمع کرانے کے لیے تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی ہیں۔ درخواست اور متفرق درخواستیں بھی اس عمل کو سست کرتی ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ پروسیجرل رولز کا ہے، جب تک ان میں ترامیم نہیں ہوں گی، التواء اکا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘
اختر حسین از خود کارروائی کے خلاف نہیں ہیں لیکن ان کے خیال میں اس طرح کی کارروائیوں کے لیے ایک کمیٹی بننی چاہیے، جو یہ فیصلہ کرے کہ آیا کوئی مسئلہ عوامی مفادات یا بنیادی انسانی حقوق کی تعریف میں آتا بھی ہے یا نہیں۔
ملک میں نون لیگ سمیت کئی سیاسی جماعتیں اور حلقے عدالتوں پر تنقید کرنے کے لیے از خود کارروائیوں او ر ججوں کی انتظامی معاملات میں مبینہ مداخلت کونشانہ بناتے ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ تاخیر ان کی وجہ سے ہوتی ہے، ’’ملک کی عدالتوں میں ججوں اور عدالتی عملے کی کمی ہے۔ صرف سندھ میں سندھ ہائی کورٹ کی بینچ کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں ہیں لیکن تقریباﹰ چالیس ججز ان بینچوں کو دیکھ رہے ہیں۔ نچلی عدالتوں میں بھی اسٹاف کی کمی ہے۔ حکومت کو یہ کمی پوری کرنی چاہیے۔ جہاں تک التوا یا تاخیر کا تعلق ہے اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں تفتیش کا ناقص ہونا اور بے گناہ افراد کو مقدمات میں ملوث کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے اعلیٰ عدالتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ مقدمات باریک بینی سے دیکھیں تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے۔‘‘
جسٹس وجیہ نے از خود کاررائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کا دفاع بھی عدالت کا ہی کام ہے: ’’از خود کارروائی صرف ایک بینچ کرتا ہے، بقیہ تو اپنے مقدمات سنتے ہیں۔ التواء کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے عدالتوں کو دو شفٹوں میں کام کرنا چاہیے اور حکومت کو اس کے لیے ضروری مدد فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
کچھ ناقدین کے خیال میں نا اہل ججوں اور عدالتی عملے میں کرپشن بھی معاملات کو بگاڑنے کا باعث بنتے ہیں۔ معروف قانون دان کرنل انعام الرحیم کے خیال میں ججوں کا احتساب نہ ہونے کی وجہ سے بھی عدالتی نظام کمزور ہورہا ہے: ’’درجنوں ججوں کے خلاف ریفرنسز یا شکایت درج ہوئی ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ شوکت صدیقی کے خلاف بھی کارروائی اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے طاقت ور اداروں کو چیلنج کیا تھا۔اس کے علاوہ عدالتوں میں نچلا عملہ پیسے لے کر فائلیں غائب کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے بھی مقدمات التوا اور تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی کے خیال میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے از خود کارروائیوں نے ملک کے عدالتی نظام کو بہت نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر کا عنصر بڑھا: ’’ہماری حکومت عدالتی اصلاحات کے لیے کوشش کر رہی ہے اور بہت جلد اس سلسلے میں ہم قانون سازی بھی کریں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افتخار چوہدری کے دور میں جو جوڈیشل ایکٹیوازم شروع ہوا اس کی وجہ سے نا اہل لوگوں کو جج بنا کر لگا دیا گیا، جنہیں مقدمات کی سمجھ نہیں ہے اور نا وہ بہت کامیاب وکیل رہے ہیں۔ ہائی کورٹس میں ججوں کی ایک بڑی تعداد میرٹ کے بنیاد پر نہیں آئی۔ میرے خیال میں سیشن کورٹ کے ججوں کی طرح ہائی کورٹس کے ججوں کے بھی ٹیسٹ ہونے چاہییں تاکہ قابل افراد ان عہدوں پر آسکیں۔ جب جج فیصلے لکھ نہیں سکتا ، تو آپ اس کی قابلیت کے بارے میں کیا کہیں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے جب اس مسئلے پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے رابطہ کیا ، تو انہوں نے ایک تحریری پیغام میں کہا کہ وہ آؤٹ آف ٹاؤن ہیں۔

’’سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے از خود کارروائیوں نے ملک کے عدالتی نظام کو بہت نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر کا عنصر بڑھا۔‘‘تصویر: AP
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں