1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاکھوں سیلاب زدہ، حاملہ پاکستانی خواتین کو طبی مدد کی ضرورت

6 ستمبر 2022

اقوام متحدہ کے مطابق ساڑھے چھ لاکھ حاملہ پاکستانی خواتین کو محفوظ زچگی کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔ یواین ایف پی اے کے مطابق صرف ستمبر کے مہینے میں ہی ایسی تہتر ہزار حاملہ خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔

Pakistan Überschwemmungen Frauen und Kinder
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلابوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکی خواتین اور لڑکیوں کو قرار دیا جارہا ہے۔ اگر کوئی خاتون حاملہ ہو تو یہ مشکلات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے بہبود آبادی کے فنڈ (یو این ایف پی اے) کےمطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین کو محفوظ زچگی اور بچوں کی بحفاظت پیدائش کے لیے طبی سہولیات درکار ہیں۔ یو این ایف پی اے کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ایسی 73 ہزار پاکستانی حاملہ خواتین کے ہاں ستمبر میں بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے زور دے کر کہا ہے کہ ان خواتین کی زچگی کے دوران مدد کے لیے ہنر مند طبی عملے کی ضرورت ہو گی، جو نومولود بچوں کی دیکھ بھال بھی کر سکے۔ یو این ایف پی اے کے مطابق اس کے علاوہ بہت سی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی بنیادوں پر تشدد کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ تقریباﹰ ایک ملین مکانات کو نقصان بھی پہنچا ہے۔

مضر صحت کھانا اور گندے بیت الخلا

انتیس سالہ امیرن امید  سے ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ سندھ کے ضلع قمبر کے ایک گاؤں سے ہے۔ وہ سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہو کر کراچی میں قائم ایک امدادی کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے امیرن نے کہا، ''بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے ہمارے علاقے میں سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ ہمارےخاندان کو کراچی پہنچنے میں تین دن لگے۔‘‘

پاکستان میں حالیہ ریکارڈ بارشوں اور شمالی علاقوں میں برفانی تودوں کےپگھلنے کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں سے ملک کا ایک تہائی حصہزیر آب آ چکا ہے اور اب تک 33 ملین شہری اس قدرتی آفت سے متاثر ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمے دار سرکاری ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق حالیہ سیلابوں کے دوران تاحال ساڑھے چار سو سے زائد بچوں سمیت کم ازکم تیرہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اکثرسیلاب متاثرین کو کھانے پینے کی اشیا کی قلت کا سامنا ہےتصویر: Zahid Hussain/AP Photo/picture alliance

پاکستان کا جنوبی صوبہ سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں سے ایک ہے۔ وہاں حکام نے بہت سے امدادی کیمپ لگا رکھے ہیں تاکہ بے گھر ہو جانے والے سیلاب متاثرین کی مدد اور دیکھ بحال کی جا سکے۔

تاہم بے گھر حاملہ امیرن کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں حاملہ خواتین کی دیکھ بحال کا مناسب انتظام نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیمپ میں مہیا کیا جانے والا کھانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ''ہم اتنا تیل اور مصالحے کھانے کے عادی نہیں ہیں۔ اس سے میرے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے اور میرے معدے میں تیزابیت پیدا ہو جاتی ہے۔ میں اس کھانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن پھر اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا رستہ بھی تو نہیں ہے۔‘‘

اٹھارہ سالہ روبینہ سات ماہ کی حاملہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دو ہفتے قبل ایک کیمپ میں پہنچنے کے بعد سے لے کر اب تک انہیں باقاعدہ کھانا نہیں مل سکا۔ روبینہ کے مطابق، ''اس امدادی کیمپ میں آئے مجھے پندرہ دن ہو چکے ہیں اور میں ایک بار بھی کوئی مناسب خوراک نہیں کھا سکی۔ میرا سر ہر وقت چکراتا رہتا ہے۔ جب میں اپنے گھر پر تھی، تو باقاعدگی سے دودھ، دہی اور پھلوں کا استعمال کرتی تھی۔ لیکن یہاں کھانے کے لیے صرف تیل اور مصالحوں سے بھر پور چاول ملتے ہیں، جن کی وجہ سے مجھے کافی مسئلہ رہتاہے۔ اور پھر یہاں بیت الخلا بھی بہت گندے ہیں۔‘‘

پاکستان: اقوام متحدہ کی ایک سو ساٹھ ملین ڈالر کی فوری اپیل

لیڈی ڈاکٹروں اور دائیوں کی کمی

بہت سے امدادی کیمپ اسکولوں کی عمارتوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ وہاں صحت عامہ کی سہولیات کی کمی ہے۔ بہت سے متاثرین نے اپنے مال مویشی بھی اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔ بہت سی خواتین کو اجنبیوں خصوصاﹰ مردوں کے ساتھ رہنے کی جگہ میں شراکت داری کے باعث ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ ایسے ہی ایک کیمپ میں پناہ گزین چالیس سالہ منشا کا کہنا ہے کہ ایک ہی چھت تلے اجنبی مردوں کی موجودگی میں وہ رات بھر جاگتی رہتی ہیں کیونکہ منشا کے بقول ' یہ (غیر متعلقہ مردوں کی موجودگی) میرے لیے آرام دہ نہیں۔‘‘ منشا کا تعلق سندھ کے قصبے کندھیرو سے ہے اور وہ اس وقت اپنے چوتھے بچے کی پیدائش کے انتظار میں ہیں۔

عارضی کیمپوں میں مختلف مسائل کے سبب خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا ہےتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

کئی حاملہ خواتین نے کیمپوں میں خواتین ڈاکٹروں اور دائیوں کی کمی کی بھی شکایت کی۔ ان میں سے بیشتر قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں کسی مرد ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کروانے کے خلا ف ہیں۔ اکثر خواتین خاص طور پر حمل اور زچگی سے متعلقہ مسائل کے بارے میں مرد ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا قطعی نامناسب سمجھتی ہیں۔

صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل محمد جُمن کے مطابق، ''زچگی سے متعلق خواتین ڈاکٹروں کی پہلے ہی کمی تھی لیکن سیلاب نے اس صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔‘‘ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ حالیہ قدرتی آفت نے صوبے میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، محمد جُمن نے کہا کہ حکام حاملہ خواتین کی فوری طبی ضروریات پورا کرنے کے لیے انہیں ہر ممکن عارضی سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔

کراچی کی ایک گائناکالوجسٹ سدرہ باسط حاملہ خواتین کے علاج کے لیے متاثرین کے مختلف کیمپوں کے دورے کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جن خواتین کے طبی معائنے کیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر خون کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''ان خواتین کو بھی اس تباہی سے صدمہ پہنچا ہے جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ ایسی ماؤں میں اضطراب اور افسردگی بچے کی ذہنی صحت کو بھی بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔‘‘

پاکستان میں حالیہ سیلابوں اور ان کے اثرات سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ کس طرح خواتین خاص طور پر ماحولیاتی اور قدرتی آفات کا شکار ہو کر بھی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔

ش ر / م م (ثنا فاطمہ)

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ خواتین سب سے زیادہ مشکل میں

03:11

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں