لاکھوں مہاجرین کی آمد کے پانچ سال بعد جرمنی آج کہاں کھڑا ہے؟
25 اگست 2020
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج سے پانچ سال قبل یہ تاریخی جملہ بولا تھا، ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘۔ یہ یورپ میں مہاجرین کے بحران کا نقطہ عروج تھا اور تقریباﹰ ایک ملین غیر یورپی مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
اشتہار
سوال یہ ہے کہ اس تاریخی واقعے کے پانچ سال بعد آج جرمنی کہاں کھڑا ہے اور اس نے اب تک اپنے ہاں ایسے کئی لاکھ تارکین وطن کی آمد سے پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کتنی کامیابی سے کیا ہے۔ میرکل طویل عرصے سے جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں لیکن ان کی زبان سے نکلا ہوا کوئی بھی دوسرا جملہ آج تک وہ تاریخی اہمیت اختیار نہیں کر سکا، جتنی یہ الفاظ: ''ہم یہ کر سکتے ہیں۔‘‘
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton
12 تصاویر1 | 12
قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) سے تعلق رکھنے والی انگیلا مریکل نے یہ الفاظ اس بارے میں سیاسی اور ذاتی اعتماد کے اظہار کے لیے ادا کیے تھے کہ یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی اپنے ہاں مہاجرین کے بحران کے دوران اپنے اپنے آبائی ممالک میں جنگوں اور مسلح تنازعات سے فرار ہو کر آنے والے پناہ کے متلاشی لاکھوں انسانوں کو پناہ دے سکتا ہے۔
خود اپنے سر لی گئی ذمے داری
یہ وہ بہت بڑا فریضہ تھا، جو جرمنی نے خود ہی اپنے سر لے لیا تھا۔ صرف چند ہفتوں کے اندر اندر 10 ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی میں داخل ہو گئے تھے۔ ان کی بہت بڑی اکثریت مشرقی یورپ میں اس راستے سے جرمنی پہنچی تھی، جسے 'بلقان روٹ‘ کہا جاتا ہے۔
ان مہاجرین کی اکثریت کئی ہفتوں تک مشرقی یورپی ملک ہنگری میں پھنس کر بھی رہ گئی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جنگ زدہ ممالک شام اور عراق سے تھا، لیکن ان میں شامی اور عراقی باشندوں کے علاوہ کافی بڑی تعداد میں شمالی افریقی ریاستوں سے آنے والے شہری اور افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔
جرمن چانسلر میرکل نے بہت بڑی سیاسی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی، حالانکہ یورپی یونین کے ڈبلن معاہدے میں طے کردہ قوانین کے مطابق یورپی یونین کے رکن وہ دیگر ممالک ان غیر ملکیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کے پابند تھے، جہاں یہ پناہ گزین موجود تھے یا جہاں سے ہو کر وہ جرمنی پہنچنا چاہتے تھے۔
دو سال میں سوا ملین مہاجرین
تب میرکل حکومت کا سب سے زیادہ انسان دوست اقدام یہ تھا کہ برلن نے ان مہاجرین کو ان کے بحرانی حالات کی وجہ سے ملک میں داخلے کی اجازت پہلے دے دی اور کہا کہ یہ بعد میں دیکھ لیا جائے گا کہ ان کے پناہ کے دعوے قانوناﹰ کس حد تک جائز ہیں۔
انگیلا میرکل کے اسی تاریخی جملے کے نتیجے میں جرمنی میں 2015ء میں تقریباﹰ نصف ملین مہاجرین نے پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں اور اگلے برس 2016ء میں تو یہ تعداد ساڑھے سات لاکھ ہو گئی تھی۔ یوں صرف دو سال میں تقریباﹰ سوا ملین مہاجرین پناہ کے لیے جرمنی پہنچے تھے۔
جرمن چانسلر میرکل نے پانچ سال قبل ملکی سرحدوں کو مہاجرین کے لیے کھول دینے کا جو حکم دیا تھا، اس کی تب مخالفت بھی کی گئی تھی۔ اس دور کے جرمن وزیر داخلہ ٹوماس دے میزیئر نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ تب 'جرمنی کا اپنی قومی سرحدوں پر کوئی کنٹرول نہیں رہا تھا‘۔ بعد میں وفاقی وزیر داخلہ کے طور پر دے میزیئر کے جانشین بننے والے قدامت پسند باویرین سیاست دان ہورسٹ زیہوفر نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ تب (سرحدیں کھول دینے کی وجہ سے) جرمنی پر 'ناانصافی کا غلبہ‘ ہو گیا تھا۔
اندرونی تنقید بھی، لیکن بیرونی تعریف زیادہ
جرمنی میں کئی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے میرکل کے اگست 2015ء میں کیے گئے اس فیصلے کو تب بھی درست قرار دیا تھا اور آج بھی وہ یہی کہتے ہیں۔ ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی ایک رہنما ایرینے میہالچ کہتی ہیں، ''تب چانسلر میرکل کا یہ فیصلہ درست تھا کہ ملکی سرحدوں کو بند نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو دوسری صورت میں جرمنی اور یورپ کا دل سمجھے جانے والے خطے میں حالات اس حد تک انتشار کا شکار ہو جاتے کہ ایک بڑے تنازعے کا شدید خطرہ پیدا ہو جاتا۔‘‘
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
ملکی، یورپی اور بین الاقوامی سطح پر تب میرکل کے اس فیصلے کو بہت سراہا بھی گیا تھا۔ یہی وہی دور تھا جب انگیلا میرکل کی بیرونی دنیا میں عزت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اور وہ ترقی یافتہ دنیا کی پسندیدہ ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک بن گئی تھیں۔
انہی دنوں میں نیو یارک ٹائمز جیسے اخبارات اور الجزیرہ ٹیلی وژن جیسے نشریاتی اداروں نے میرکل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرکل نے 'غیر معمولی انسان دوستی‘ کا ثبوت دیا تھا۔
جرمنی میں تب رائے عامہ بھی منقسم تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے بعد عوامیت پسند سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور یہ بھی کہا گیا کہ ان مہاجرین کی وجہ سے جرمن معاشرے میں جرائم بڑھ جائیں گے۔
یہ انہی بحرانی سیاسی حالات کا نتیجہ تھا کہ جرمنی میں 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی نامی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت کو حاصل عوامی تائید میں اضافہ بھی ہونے لگا تھا۔
سماجی انضمام کا عمل
میرکل حکومت نے ایک ملین سے زائد غیر یورپی مہاجرین کی ملک میں آمد کے ساتھ ہی ان کے سماجی اور معاشی انضمام کی کوششیں بھی شروع کر دی تھیں۔ یہ کوششیں بہت کامیاب بھی رہیں مگر پوری طرح نہیں۔ لیکن اس وجہ سے ان کاوشوں کا ناکام بھی نہیں کہا جا سکتا۔
مہاجرين اور اين جی اوز کے ساتھ يکجہتی، جرمن شہری سڑکوں پر
ہزاروں کی تعداد ميں جرمن شہريوں نے بحيرہ روم ميں مہاجرين کو ريسکيو کرنے والی غير سرکاری تنظيموں کے حق ميں مظاہرے کيے ہيں۔ ايسی تنظيميں ان دنوں سياسی دباؤ کا شکار ہيں اور ان کی سرگرميوں کو روک ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
برلن ميں ہزارہا افراد سراپا احتجاج
غير سرکاری تنظيموں کی مہاجرين و تارکين وطن کو ريسکيو کرنے سے متعلق سرگرميوں کو مجرمانہ فعل قرار ديے جانے پر جرمن دارالحکومت برلن سميت ديگر کئی شہروں ميں مظاہرين نے ہفتے کے روز احتجاج کيا۔ برلن کے مظاہرے ميں بارہ ہزار سے زائد افراد شريک تھے۔ علاوہ ازيں ہيمبرگ، بريمن، ميونخ اور اُلم ميں بھی احتجاج کيا گيا۔ مظاہرين نے مہاجرين کے ساتھ يکجہتی کے ليے لائف جيکٹس اٹھا رکھی تھيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
ريسکيو کرنے والوں کے ساتھ يکجہتی
ہيمبرگ کے مظاہرے ميں شريک ايک خاتون ’زے برؤکے‘ کے نام سے سرگرم رضاکاروں کے اتحاد کے ساتھ يکجہتی کے طور پر نارنجی رنگ کی لائف جيکٹس اور ديگر کپڑے لٹکاتے ہوئے ہے۔ نيچے لکھی تحرير کا مطلب ہے، ’سمندر ميں انسانوں کی جانيں بچانا جرم نہيں۔‘ ’زے برؤکے‘ کے لفظی معنی ’سمندر ميں پل‘ ہيں اور يہ اتحاد اس واقعے کے بعد وجود ميں آيا، جس ميں ایک بحری جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
سب سے جان ليوا سمندری گزر گاہ
برلن ميں نکالے گئے مظاہرے ميں شريک دو خواتين جن کے پلے کارڈ پر لکھا ہے ’انہيں سمندر ميں بھولنا نہيں‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2018ء ميں اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے ميں مہاجرين کی بحيرہ روم کے راستے آمد ميں خاطر خواہ کمی تو نوٹ کی گئی ہے تاہم يہ سال کافی جان ليوا بھی ثابت ہوا ہے۔ رواں سال اب تک چودہ سو سے زيادہ افراد بحير روم ميں ڈوب کر ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’بندرگاہيں کھول دو‘
متعدد اين جی اورز پچھلے دنوں کئی يورپی سياستدانوں کی تنقيد کا نشانہ بنتی رہی ہيں۔ چند ممالک نے مہاجرين سے لدے جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دی يا پھر کافی تاخير سے اجازت دی۔ ايسے يورپی رہنما الزام عائد کرتے ہيں کہ ريسکيو سرگرميوں ميں ملوث غير سرکاری تنظيميں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں ميں کھيل رہی ہيں۔ اين جی اوز کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا کام نہ کريں تو کئی انسانی جانيں ضائع ہو سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
جرمن حکومت کی پاليسيوں پر برہمی
مظاہرے ميں شريک ايک شخص نے ايک تختی اٹھا رکھی ہے جس پر لکھا ہے، ’زيہوفر کی جگہ زیبرؤکے۔‘ يہ جرمن وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی پناہ گزينوں کے حوالے سے سخت پاليسی پر ايک طنزيہ جملہ ہے۔ زيہوفر کے اسی موضوع پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے ساتھ اختلافات نے وفاقی حکومت کو بھی کافی پريشان کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کو دوبارہ ايک بحران کا سامنا تھا جو بظاہر فی الحال ٹل گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’يورپ کی سرحديں بند رکھنے کی ذہنيت‘
جرمنی ميں ہفتہ سات جولائی کے روز نکالے گئے ان مظاہروں ميں شامل بيشتر افراد نے مہاجرين کو محفوظ راستے فراہم کرنے کی ضرورت پر زور ديا۔ انہوں نے ’فورٹريس يورپ‘ يا اس سوچ کی مخالفت کی کہ تمام اطراف سے سرحديں بند کر کے يورپ کو ايک قلعے کی مانند پناہ گزينوں کے ليے بند کر ليا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
6 تصاویر1 | 6
جرمنی میں روزگار سے متعلق تحقیق کے ادارے آئی اے بی کے اسی سال مکمل کیے گئے ایک تحقیقی جائزے کے مطابق 2013ء سے اب تک جتنے بھی مہاجرین یا تارکین وطن جرمنی آئے، ان میں سے نصف کے پاس باقاعدہ اجرتوں والی ملازمتین ہیں۔ جہاں تک ان مہاجرین کے سماجی انضمام کے بارے میں رائے عامہ کا تعلق ہے، تو آج بھی 60 فیصد جرمن باشندے یہ سوچتے ہیں کہ ان کا ملک ان مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ جرمن باشندے جو ایسا نہیں بلکہ اس کے برعکس سوچتے ہیں، ان کی شرح 40 فیصد بنتی ہے۔
'جرمنی کامیابی کی طرف گامزن‘
جرمنی کے ادارہ برائے اقتصادی تحقیق کے جائزوں کے مطابق یہ ملک اپنے ان اہداف کے حصول کی طرف کامیابی سے گامزن ہے، جن کا اس نے اپنے لیے انتخاب پانچ سال قبل کیا تھا۔ اس عمل کو مزید مؤثر اور تیز بنانے کی ضرورت ہے اور اس میں جرمن ریاست اور یہاں پناہ لینے والے مہاجرین دونوں کا مشترکہ کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
اسی لیے گرین پارٹی کی ایرینے میہالچ کہتی ہیں، ''سماجی انضمام کوئی راتوں رات پورا ہو جانے والا عمل نہیں ہوتا، اور جرمنی میں یہ عمل آج بھی جاری ہے۔‘‘
کرسٹوف ہاسل باغ (م م / ک م)
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔