اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ مہاجرین کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے مالی وسائل کی کمی کے باعث دنیا بھر میں موجود لاکھوں مہاجرین کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
اے ایف پی کی جنیوا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے وسائل کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں مہاجرین کے سروں سے چھت چھن جانے کا خطرہ ہے۔ اس عالمی ادارے نے نجی کمپنیوں اور تنظیموں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی بے گھر مہاجرین کی آباد کاری کے لیے مالی مدد فراہم کریں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے Nobody Left Outside یا ’کوئی باہر نہ رہے‘ نامی اپنی عالمی مہم شروع کرتے ہوئے بتایا کہ اسے اب بھی دنیا بھر میں مہاجرین کو رہائش کی مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے کم از کم 500 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’عالمی سطح پر تعاون اور مالی امداد میں اضافہ نہ کیا گیا تو جنگوں اور مسلح تنازعات کے باعث اپنے گھر بار چھوڑ کر لبنان، میکسیکو اور تنزانیہ جیسے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہونے والے لاکھوں تارکین وطن کو مناسب رہائش گاہیں فراہم نہیں کی جا سکیں گی، جس کی وجہ سے وہ سڑکوں تک پر سونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔‘‘
شام میں گزشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں پائے جانے والے بحرانوں کے باعث عالمی سطح پر چھ کروڑ سے زائد انسان اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پرمجبور ہو چکے ہیں۔
موجودہ صورت حال کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’رہنے، کھانے پینے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے محفوظ جگہوں کی عدم دستیابی کے باعث ان کئی ملین مہاجرین کو صحت اور سلامتی کے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘۔
اڈومینی کے ابتر حالات میں مہاجرین کی تشویش
02:10
یو این ایچ سی آر کی موجودہ مہم کا مقصد نجی اداروں کو مہاجرین کو رہائش گاہیں فراہم کرنے کے عمل میں مالی معاونت کی ترغیب دینا ہے۔
عالمی ادارہ ہر سال 70 ہزار بڑے خیمے اور 20 لاکھ چھوٹے خیمے خرید کر مہاجرین کی آباد کاری کے لیے فراہم کرنے کے علاوہ کرائے پر مکان حاصل کر کے بھی ایسے بے گھر انسانوں کو رہائش گاہیں فراہم کرتا ہے۔
اس ادارے کے مطابق صرف اس برس کے دوران مہاجرین کو رہائش کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے 728 ملین ڈالر درکار ہیں لیکن فی الوقت اس ادارے کے پاس صرف 158 ملین ڈالر کی فنڈنگ موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ہمیں ہر مہاجر کو چھت فراہم کرنا ہے۔کسی کو بھی اس سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔