1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاک ڈاؤن کے نام پر سنکیانگ ’ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ‘ بن گیا

31 اگست 2020

سنکیانگ کا لاک ڈاؤن ایک وسیع نگرانی کے تحت مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ اس سے سنکیانگ کا علاقہ ایک ’ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ‘ بن کر رہ گیا ہے۔

China Der Freiwillige Ekebar Emet veröffentlicht Maßnahmen zur Epidemieprävention
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency

 

چین کے دور افتادہ شمال مغربی حصے سنکیانگ میں حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے خوفناک قسم کے اقدامات کا سہارا لے رہی ہے۔ مقامی باشندوں کو مقید کرنا، چالیس روز سے زائد قرنطینہ میں رکھنا اور ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے والوں کو گرفتار کرنا جیسے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں چینی حکام دیگر نامناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ طبی اخلاقیات کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق رہائشیوں کو روایتی چینی طبی طریقوں سے تیار کردہ ادویات زبردستی لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں سنکیانگ کے قرنطینہ میں موجود تین افراد کے انٹرویوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے۔ روایتی چینی ادویات کے کورونا وائرس کے خلاف کار آمد ہونے سے متعلق جامع اور مستند 'کلینیکل ڈیٹا‘ کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ چینی روایتی طبی نسخے سے تیار کردہ ایک 'ملٹی کمپوننٹ ہربل فارمولا‘ Qingfei میں ایسی اجزاء شامل ہیں جن پر جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور امریکا میں پابندی عائد ہے۔

سنکیانگ میں تازہ ترین لاک ڈاؤن نہایت خوفناک شکل کے ساتھ اب اپنے 45 ویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔ دراصل اس کا اطلاق جولائی کے وسط میں کورونا کے 826 نئے کیسز کے سامنے آنے کے بعد ہوا تھا۔ گزشتہ سال مہلک کورونا وائرس کی وبا کے چین میں پھوٹنے کے بعد سے سنکیانگ کے علاقے میں یہ کورونا کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاہم سنکیانگ کے لاک ڈاؤن پر زیادہ تنقید اس لیے ہو رہی ہے کہ اس کی شدت بہت زیادہ ہے اور اس لیے بھی کیونکہ سنکیانگ کے علاقے میں کورونا وائرس کے مقامی ٹرانسمیشن یا منتقلی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

ایغور باشندوں کے علاقے میں چینی پولیس کا گشت۔تصویر: Imago Images/Kyodo News

چین کے دیگر علاقوں میں لاک ڈاؤن کی صورتحال

یہ بات قابل غور ہے کہ چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا آغاز جہاں سے ہوا اور جہاں سب سے پہلے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی وہ تھا صوبہ ہوبے اور اس کا شہر ووہان۔ صرف شہر ووہان میں 55 ہزار کیسز سامنے آئے جبکہ صوبے ہوبے میں ان کی کُل تعداد 68 ہزار رہی۔ یہ تعداد سنکیانگ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہوُبے کے رہائشیوں کے ساتھ نہ تو روایتی چینی ادویات نگلنے کے لیے زور زبردستی کی گئی نہ ہی انہیں اشیائے خورد و نوش کی خریداری اور ورزش وغیرہ کے لیے اپنے رہائشی کے احاطے سے باہر جانے پر کسی قسم کی پابندی کا سامنا رہا۔ اسی طرح بیجنگ، جہاں جون کے اوائل میں 300 کورونا کیسز سامنے آئے تھے، میں محض چند محلوں کو چند ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔       

زیادہ سختی سنکیانگ میں کیوں؟

سنکیانگ کی 25 ملین کی آبادی کا نصف حصہ لاک ڈاؤن میں ہے۔ ریاستی میڈیا کی رپورٹس اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے جائزے کے مطابق سنکیانگ کے دارالحکومت اُرومچی، جو کورونا کا مرکز ہے سے کئی سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں لاک ڈاؤن کی پابندیاں عائد ہیں۔ یہاں تک کہ ووہان اور چین کے بقیہ علاقوں میں زندگی معمول پر آ چُکی ہے۔ سنکیانگ کا لاک ڈاؤن ایک وسیع نگرانی کے تحت مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ اس سے سنکیانگ کا علاقہ ایک 'ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ‘ بن کر رہ گیا ہے۔

اُرومچی میں پارا ملٹری فورسز مستقل طور پر تعینات۔تصویر: Getty Images/AFP/Goa Chai Hin

گزشتہ تین سالوں کے عرصے میں سنکیانگ کے حکام ایک ملین یا اس سے بھی زائد ایغور، قازق اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو مختلف اقسام کے حراستی مراکز، جن میں ماورائے عدالت حراست میں رکھے جانے کے لیے قائم کیمپس بھی شامل ہیں، سکیورٹی کے وسیع کریک ڈاؤن کے تحت رکھا گیا ہے۔

   امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی کے ایک محقق ڈیرن بائلر کے بقول، ''سنکیانگ ایک پولیس ریاست بن چکی ہے۔ بنیادی طور پر وہاں مارشل لاء ہے۔‘‘ ریسرچر بائلر نے مزید کہا، ''وہ سمجھتے ہیں کہ ایغور باشندے اپنی حفاظت اور قرنطینہ سے متعلق احکامات کی خود سے پیروی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘‘ 

 

کورونا وائرس کے خلاف جڑی بوٹیوں کے علاج پر سوال؟

رواں سال مارچ کے مہینے میں عالمی ادارہ صحت نے نے کہا تھا کہ جڑی بوٹیوں سے وائرس کا علاج مؤثر ثابت نہیں ہوا ہے بلکہ یہ نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ اس کے جواب میں بیجنگ حکومت کی طرف سے مئی میں ایک مسودہ قانون متعارف کرایا جس کے تحت روایتی چینی طب کے تحت تیار کردہ جڑی بوٹیوں پر مشتمل ادویات کو بدنام کرنا جرم قرار دیا جائے گا۔ اب چینی حکومت چینی روایتی ادویات کے استعمال پر زور دے رہی ہے اور کووڈ انیس کے خلاف چین کی بنی جڑی بوٹیوں سے ادویات بنانے والے چینی ماہرین کو بیرون ملک بھیج رہی ہے۔ ان ممالک میں ایران، اٹلی اور فلپائن شامل ہیں۔

ک م / ا ب ا (اے پی، اے پی ای)

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں