لاہور بار کا احمدیوں کے حوالے سے خط: کمیونٹی میں خوف
عبدالستار، اسلام آباد
29 جولائی 2020
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک کمیٹی نے وزیر داخلہ پنجاب کو ایک خط لکھا ہے، جس میں احمدی کمیونٹی کو قربانی کرنے سے روکنے کا کہا گیا ہے۔ اس خط سے احمدیہ کمیونٹی میں خوف پیدا ہو گیا۔
اشتہار
خط میں کہا گیا ہے کہ قربانی صرف مسلمان کر سکتے ہیں جب کہ احمدیوں کو آئین غیر مسلم قرار دے چکا ہے۔ مزید تحریر کیا گیا کہ وزارت داخلہ، پولیس افسران کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکیں اور اگر افسران ایسا نہ کریں تو ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔
اس خط کے منظر عام پر آنے سے احمدی کمیونٹی میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ احمدی کمیونٹی کو پاکستان میں معتصبانہ رویہ کا سامنا ہے اور اس کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کو ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔ پاکستان میں مذہبی طبقات کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے، لہذا وہ شعائر اسلام کو نہ اپنائیں۔
پاکستان میں ختم نبوت کا مسئلہ انتہائی حساس رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے ایک سرکاری فارم میں ختم نبوت کے خانے کو ختم کرنے پر نواز شریف کی حکومت کو کچھ برس پہلے سخت مزاحمت کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ انتخابات سے پہلے عمران خان کو بھی اس مسئلے پر ایک مذہبی رہنما کے سامنے صفائی پیش کرنی پڑی، جب کہ تحریک انصاف نے اقتدار میں آ کر جب ایک احمدی اکانومسٹ کو اکنامک کونسل کا رکن بنایا تو اس پر بھی بہت احتجاج ہوا اور بالا آخر حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن کے صدر طاہر نصر اللہ وڑائچ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ خط بار ہی کی طرف سے ارسال کیا گیا ہے۔ "بار کی ایک کمیٹی ہے جس کی طرف سے یہ خط بھیجا گیا ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خط بار کی جنرل کونسل یا ہاؤس کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔"
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بار کے اس خط پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خطوط سے اقلیتوں میں خوف مزید بڑھے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ، "پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار پہلے ہی بہت خراب ہے، ہندو اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ رجعت پسندوں کی ڈکٹیشن کو قبول کئے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرہ تباہی کی طرف جارہا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی احمدی ہو یا کسی اور اقلیت سے وہ پاکستان کا شہری ہے۔ "اور پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے اس کا حق ہے کہ وہ آئین میں دیئے گئے حقوق سے مستفید ہو اور اپنی مذہبی فرائض کو ادا کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس خط کا نوٹس لے اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے فوری طور پر اقدامات اٹھائے کیونکہ اس طرح کی حرکتوں سے ان میں خوف ہراس بڑھ رہا ہے۔"
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے کہا ہے یہ خط حقائق کے منافی ہے۔ "ہم تو پہلے ہی خوف کی فضا میں رہے رہے ہیں۔ اب اس خط کی وجہ سے مزید خوف بڑھے گا کیونکہ ہماری کمیونٹی کے خلاف ماضی میں بھی پر تشدد کارروائیاں ہوئی ہیں اور اس طرح کی اشتعال انگیز چیزوں کی وجہ سے ہمارے خلاف تشدد کا امکان بڑھ جاتا ہے۔"
ان کا مذید کہنا تھا کہ ہمارے علاقوں میں گھروں کے باہر کی نالیوں تک پر نظر رکھی جاتی ہے۔ "اور اگر کسی کو پتہ چل جائے کہ اس نالی سے خون نکلا ہے تو وہ فورا ان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے۔ گزشتہ برس بھی ہمارے خلاف قربانی کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئیں اور اب ایک بار پھر خوف کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ لیکن ہم ایک پر امن کمیونٹی ہیں، جو تمام مشکلات کے باوجود ملک کی خدمت کر رہے ہے۔"
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی کے بیس برس
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر چوبیس مارچ سن 1999 کو شروع ہوئی تھی۔ اس عسکری مشن سے سرب فوج کے کوسووو کی البانوی نژاد آبادی پر حملے کنٹرول کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے
کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔
تصویر: Eric Feferberg/AFP/GettyImages
غیر متشدد مزاحمتی تحریک کی ناکامی
سن 1980 کی دہائی میں بلغراد حکومت کی طرف سے البانوی نسلی اقلیت کے ثقافتی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد کوسووو کے عوام نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کوسووو کے رہنما ابراہیم روگووا کی یہ سیاسی کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ سرب رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ اپنی سوچ میں تبدیلی پر تیار نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلح گوریلا جنگ
حالات پرتشدد ہونے کے بعد کوسووو لبریشن آرمی نے ایک مسلح گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس نے سرب آبادی کے ساتھ ساتھ البانوی نژاد افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سرب دستوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں اس نسلی اقلیت کی ملکیت گھروں اور دکانوں کو نذرآتش کرنا شروع کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں جانیں بچاتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منظم بے دخلی
سربیا کی جنگ شدید تر ہوتی گئی اور اس دوران کوسووو لبریشن آرمی کی طرف سے سخت مزاحمت کے تناظر میں سرب فوجوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہزارہا ’کوسووار‘ باشندوں کو ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ان کی اکثریت کے پاس اپنی شناختی دستاویزات تک نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مذاکرات کی آخری کوشش بھی ناکام
امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے اس تنازعے کے فریقین کو فروری سن 1999 میں پیرس کے نواحی علاقے ریمبولے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا تاکہ کوسووو کے لیے عبوری خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا سکے۔ کوسووو نے اس ڈیل پر رضامندی ظاہر کر دی لیکن سربیا نے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تو یہ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’انسانیت کے نام پر فوجی مداخلت‘
چوبیس مارچ سن 1999 کو نیٹو نے سربیا کے فوجی اور اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تا کہ کوسووو کی البانوی نژاد آبادی کو پرتشدد حملوں سے بچایا جا سکے۔ جرمنی بھی ان حملوں میں شریک تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کی قیام کے بعد کے پچاس برسوں کی تاریخ میں یہ نیٹو کی پہلی جنگ کارروائی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور روس نے نیٹو کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی۔
تصویر: U.S. Navy/Getty Images
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
نیٹو کے جنگی طیاروں نے مسلسل اناسی دنوں تک سینتیس ہزار فضائی مشن مکمل کیے۔ سربیا کے اہم مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران رسد کے راستے ختم کرنے کے لیے بے شمار پل اور ریلوے ٹریک تباہ کر دیے گئے۔ سربیا پر بمباری کے علاوہ دو ہزار راکٹ بھی داغے گئے، جس دوران بہت سے عام شہری بھی مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانچیوو کے اوپر زہریلے بادل
بلغراد کے قریبی شہر پانچیوو کی کیمیائی کھاد بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی نیٹو کے جنگی طیاروں نے بم برسائے۔ اس حملے کے بعد اس فرٹیلائزر فیکٹری سے انتہائی مضر کیمیائی مادہ دھوئیں کی صورت میں پانچیوو کی فضا میں پھیل گیا۔ سربیا نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس حملے میں کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ افزودہ یورینیم والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگی پراپیگنڈے کے خلاف بھی جنگ
سربیا کے رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ کے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے نیٹو کے جنگی طیاروں کو بلغراد کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بھی نشانہ بنانا پڑا۔ اس حملے سے قبل سربیا کی حکومت کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط اہداف پر بمباری
نیٹو کی بمباری کے دوران ایک مرتبہ البانوی نژاد مہاجرین کا ایک قافلہ بھی نشانہ بن گیا تھا، جس میں اسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بھی غلطی سے بم گرنے سے چار افراد کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک شدید سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تصویر: Joel Robine/AFP/GettyImages
المناک میزانیہ
سلوبوڈان میلوشیووچ کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے ابتدائی پیغام سے ہی خوف و ہراس کے سلسلے میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔ نیٹو نے انیس جون سن 1999 سے بمباری بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہو گئے تھے۔ سرب معیشت زوال پذیر تھی اور بیشتر انتظامی ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔ پھر کوسووو کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔