بشارت علی پندرہ برس کا تھا، جب اس کی ٹانگیں جواب دینے لگیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ٹانگوں میں اس کم زوری کی وجہ آلودہ اور گندہ پانی ہے۔ لاہور کے نواحی علاقوں میں ہزاروں افراد آلودہ پانی کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔
اشتہار
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نواحی گاؤں کوٹ اسداللہ کے رہائشی بشارت علی کی حالت یہ ہے کہ اس ٹانگوں میں اتنا دم بھی نہیں کہ وہ اسکول کا بستہ اٹھا سکے۔ ڈاکٹروں کے مطابق پینے کے پانی میں آرسینک، فلورائیڈ کی زیادہ مقدار اور دیگر کیمیائی مادوں اور دھاتوں کی بھاری مقدار اس طرز کی بیماریوں کی وجہ ہے۔ علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’میرے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا اور علاج کرانے کے لیے مجھے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔‘‘
پانی، فطرت کا ایک قیمتی اثاثہ
اگر کھانا پکانا ہے تو پانی چاہیے، کاشتکاری کے لیے بھی پانی درکار ہوتا ہے اور انسانی جسم کے لیے بھی ’آب‘ ہی حیات ہے۔ پانی کی حقیقی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ آج پانی کا عالمی دن منا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
پانی کے محدود وسائل
اگرچہ زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس کا صرف تین فیصد حصہ پینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسر جانب پینے کے پانی کی قلت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں دو ارب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانی کی قلت
دو ارب لوگ صاف پانی کی عدم ترسیل کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ان اعداد و شمار میں واضح اضافہ متوقع ہے۔ کئی جائزوں کے مطابق سن 2050 تک تین ارب لوگ قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں مقیم ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/J. Sullivan
’فطرت برائے آب‘
پینے کے پانی کی قلت کے مسئلے کی نشاندہی کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ پچیس برسوں سے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہر سال 22 مارچ کو ایک نئے عنوان کے ساتھ پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو اس برس ’فطرت برائے آب‘ رکھا گیا ہے۔ جس کا مقصد اِس بات پر توجہ مرکوز کرانا ہے کہ فطرت کے پاس خشک سالی، سیلاب اور آلودگی جیسے مسائل کا حل موجود ہے۔
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS/Sokhin
گدلا پانی، ایک متبادل ذریعہ
پانی کا ضائع ہونا بھی اس کی قلت کی ایک اہم وجہ ہے۔ تاہم اب استعمال شدہ یا گدلے پانی کو دوبارہ صاف کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے اور صرف چند ممالک اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Maina
وسائل کا ضیاع
اسرائیل میں نوے فیصد گدلے پانی کو زرعی آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم زیادہ تر ممالک ان وسائل کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں، اسی فیصد استعمال شدہ پانی سے آلودگی پھیلتی ہے کیونکہ ابھی تک گدلے پانی کو دوبارہ صاف کرکے استعمال نہیں کیا جاتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Bothma
پینے کا صاف پانی میسر نہیں
گدلے پانی کو موثر طریقے سے قابلِ استعمال بنانے کا عمل قحط سالی کے مسئلے کا حل بن سکتا ہے۔ نمیبیا اور سنگاپور میں گندے پانی کو شفاف بنانے کے بعد پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی دیگر ممالک میں اس حوالے سے ابھی تک تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ اکثر لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ وہ ’ریفانئنڈ ویسٹ واٹر‘ پینے سے بیمار ہو جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
گندے پانی کا مسئلہ
عموماﹰ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بوتلوں میں ملنے والا ’منرل واٹر‘ زیادہ صحت بخش ہوتا ہے۔ تاہم کئی تازہ جائزوں نے ثابت کیا ہے کہ منرل واٹر کی بوتلوں میں بھی آلودہ پانی شامل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی معروف کمپنیوں کی تیار کردہ منرل واٹر کی بوتلوں میں پلاسٹک کے ایسے چھوٹے زرے پائے گئے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق لاہور اور لاہور کے نواح میں قائم 90 فیصد فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ باقاعدہ طور پر ٹھکانے لگانے کی بجائے کھلے نالوں میں پھینک دیتی ہیں، جس سے پینے کا پانی زہریلا ہو رہا ہے۔
مقامی میڈیا نے ایک دہائی قبل پہلی مرتبہ بشارت علی کے گاؤں میں زہریلے پانی کے مسئلے کو اجاگر کیا تھا، تاہم دس برس سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود حکومتی عہدیدار اور پانی سے متعلق ماہرین اس علاقے کے دورے تو کرتے رہے، تاہم کوئی خاطر خواہ حل سامنے نہیں آیا۔
اس علاقے میں بہت سے نئے کنوئیں تو کھودے گئے ہیں تاہم ان سے حاصل ہونے والا پانی اور زیادہ آرسینک کا حامل ہے۔ اس دوران علی اور اس علاقے کے رہائشی ایک بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔ سماجی کارکنوں کے مطابق سن 2000 سے اب تک قریب اس گاؤں کے قریب دو سو بچے ہڈیوں اور دانتوں کی کم زوری کا شکار ہو چکے ہیں۔
علی کے مطابق، ’’اس عرصے میں یہ افراد بالغ ہو چکے ہیں، تاہم گھر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں گلی ہوئی ہیں اور ان سے کوئی شادی تک کو تیار نہیں۔‘‘ بشارت علی کی دونوں ٹانگوں کی لمبائی میں نمایاں فرق ہے اور دانت انتہائی پیلے اور کم زور ہیں، جب کہ اسے چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
انجانے طور پر کس طرح پلاسٹک ہمارے جسم میں جا رہا ہے
پلاسٹک کے باریک ذرات یا مائیکرو پلاسٹک نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی ضرر رساں ہے۔ اس کے باوجود ایسے ذرات روز مرہ کی زیر استعمال مصنوعات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی ہی چند اشیا پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
ٹوتھ پیسٹ
مائیکرو پلاسٹک حجم میں 5 ملی میٹر سے بھی کم ہوتے ہیں۔ لیکن سمندر میں جمع ہو کر یہ نہ صرف سمندری حیات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ہوا میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹوتھ پیسٹ میں بھی انکی موجودگی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ کس طرح ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
فیس واش
کاسمیٹک مصنوعات کی پیکنگ سے لے کر ان میں شامل اجزا تک میں پلاسٹک موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ چہرہ دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بعض فیس واش میں بھی مائیکرو پلاسٹک استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/Y. Mok
سمندری حیات
سن 2017 میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق انڈونیشیا اور کیلیفورنیا کی مارکیٹوں میں دستیاب مچھلیوں کے ٹیسٹ سے سامنے آیا کہ 25 فیصد مچھلیوں کے پیٹ میں پلاسٹک اور پلاسٹک کے مصنوعی ذرات موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Anka Agency International
سمندری نمک
سن 2017 میں شائع ہونے والے کئی مطالعات کے مطابق امریکا، یورپ اور چین کے سمندری نمک میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا۔ اس تناظر میں یہ بات حیران کن نہیں کہ سمندر میں پایا جانے والا 60 سے 80 فیصد کباڑ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Bildagentur-online/Tetra
شہد
عموماﹰ اس پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ مچھلی، جھینگے اور چند دیگر سمندری حیات میں مائیکرو پلاسٹک پائے جاتے ہیں لیکن چند سائنسدانوں کے مطابق شہد بھی اب پلاسٹک سے محفوظ نہیں۔ حالیہ یورپی پلاسٹک اسٹریٹیجی میں شہد بھی ان مصنوعات کی فہرست میں شامل ہے جس میں مائیکرو پلاسٹک پائی گئی ہے جس کے باعث مائیکرو پلاسٹک پر پابندی لگانے کی سفارشات میں تیزی آئی ہے۔
تصویر: Colourbox
کمبل
مصنوعی ریشے دار کپڑوں کی دھلائی کے وقت بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے انتہائی باریک ریشے اس گندے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو سمندر میں گرتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 5 سے 8 ملی میٹر لمبائی کے 7 لاکھ سے زائد ریشے صرف کمبلوں کی دھلائی میں ہی خارج ہو کرپانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Imago/Mint Images
نلکے کا پانی
سائنسدانوں نے مختلف ممالک میں نلکے کے پانیوں کا معائنہ کیا تو سامنے آیا کہ 80 فیصد نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ امریکا کے 94 اور جرمنی اور برطانیہ میں 70 فیصد نمونے پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ پائے گئے۔
تصویر: Imago/Westend61
7 تصاویر1 | 7
کلالاں والا کے علاقے میں واقع کوٹ اسد اللہ کے ایک اور 26 سالہ رہائشی محمد مختار کے مطابق، ’’لوگ اب ہمیں دیکھ کر ہی پہچان جاتے ہیں کہ ہمارا تعلق کلالاں والا سے ہے۔‘‘ اس علاقے میں اب لوگ شمسی توانائی سے چلنے والے ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ کے باہر قطار بنا کر پینے کے پانی کے کنستر بھرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے فلٹریشن پلانٹ ابھی زیرتعمیر ہے، تاہم مقامی رہائشیوں کے مطابق پانی کی جنتی ضرورت ہے، اس کے اعتبار سے یہ دو پلانٹ بھی کافی نہیں ہوں گے۔