1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

لاہور میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو درجن طلبا زخمی

16 اکتوبر 2024

حکام کے مطابق یہ طلبا لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف احتجاج کے دوران زخمی ہوئے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے وہ اس مقدمے کے مختلف پہلوؤں کی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے۔

لاہور میں طلبہ مال روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے
لاہور میں طلبہ مال روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے تصویر: Shakoor Khan/DW

پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حکام کا کہنا ہے کہ  ایک نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف مظاہروں میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران دو درجن سے زائد طلبا زخمی ہو گئے۔ لاہور سے آج بروز بدھ موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ  طلبا اس مبینہ واقعے کی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد پیر اور منگل کو کیے گئے پر تشدد احتجاج کے دوران زخمی ہوئے۔

 طلبا نے ان مظاہروں کا آغاز اس پرائیویٹ کالج کے کیمپس سے کیا تھا لیکن بعد میں وہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی کے باہر جمع ہو گئے، جہاں ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ کالج انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی کہ اس ادارے کی حدود میں کسی طالبہ کے ساتھ میبنہ جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔

پنجاب کالج میں میبنہ جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف احجتاج کو روکنے کے لیے لاہور میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھیتصویر: Shakoor Khan/DW

پاکستان میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد عام ہے لیکن اس قدامت پسند ملک میں اس نوعیت کے معاملات سے منسلک بدنامی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کو کم  ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے خلاف احتجاج غیر معمولی بات ہے۔

صوبائی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی نے بتایا کہ مبینہ طور پر متاثرہ لڑکی نے بتایا ہے کہ وہ دو  اکتوبر کو اپنے گھر میں پھسل گئی اور اسے ہسپتال لے جایا گیا، جہاں اس کا گیارہ اکتوبر تک علاج کیا گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ تین اکتوبر سے کالج سے غیر حاضر تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کہا ہے کہ وہ اس کیس میں سوشل میڈیا پر رپورٹس پھیلانے والے لوگوں کی شناخت کرنے کے علاوہ اس مقدمے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم  برائے پائیدار سماجی ترقی (ایس ایس ڈی او) نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ 2023 میں پاکستان میں ریپ کے 7,010 واقعات رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے تقریباً 95 فیصد صوبہ پنجاب میں پیش آئے تھے۔

اس احتجاج میں طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی سڑکوں پر دکھائی دیںتصویر: Shakoor Khan/DW

اس تنظیم کے مطابق، ''تاہم پاکستان میں سماجی بدنامیوں کی وجہ سے، جو متاثرہ خواتین کی طرف سے مدد حاصل کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کم رپورٹنگ کی وجہ سے ریپ کے کیسز کی اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘

لاہور میں رواں ہفتے کا یہ احتجاج اس واقعے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد سامنے  آیا، جس میں ایک خاتون نے کہا  تھا کہ  جنوبی سندھ میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم پر ڈیوٹی کے دوران اسے مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں اب تک تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔ بعد ازاں اس متاثرہ خاتون کے شوہر نے مبینہ حملے کے بعد اسے یہ کہہ کر گھر سے باہر نکال دیا تھا کہ اس خاتون نے اس کے خاندان کا نام خراب کر دیا تھا۔

ش ر⁄ م م (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں