لاہور میں احتجاجی مظاہرہ آج ہر قیمت پر ہو گا، منظور پشتین
22 اپریل 2018
پاکستان کے شہر لاہور میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے مقامی حکومت کی جانب سے جلسے پر پابندی کو رد کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلی کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
پشتون تحفظ تحریک نے پاکستان بھر میں ماورائے عدالت قتل، لاپتہ افراد کی بازیابی اور پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے پشتون افراد کی مبینہ تذلیل کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ یوں تو اس تحریک کا مرکز پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا ہے لیکن پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی جہاں جہاں پشتون آبادی موجود ہے، اسے بھرپور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔
پاکستانی میڈیا کی جانب سے اس تحریک کے جلسوں کو کوریج نہ دینے کے باوجود پشتون تحفظ موومنٹ ہزاروں افراد کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہفتہ اکیس اپریل کی رات پی ٹی ایم کے رہنماؤں سمیت عوامی ورکرز تحریک کے بعض نمائندگان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ علاوہ ازیں تحریک کے کچھ سرگرم طلبا کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔
ایک مقامی پولیس افسر نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حراست میں لیے گئے تمام افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
تحریک کے رہنماؤں کے خلاف اس کریک ڈاؤن سے سوشل میڈیا پر غم و غصہ دیکھنے میں آیا اور ہیش ٹیگ ریلیز ’پی ٹی ایم ورکرز‘ اور ہیش ٹیگ ’شیم آن پنجاب پولیس‘ ٹرینڈ کرنے لگے۔
اس مجوزہ ریلی میں شرکت کے لیے ملک بھر سے پی ٹی ایم کے سپورٹرز پہلے ہی سے لاہور پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
تحریک کے رہنما منظور پشتین نے انتظامیہ کی جانب سے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جلسے کے لیے مطلوبہ جگہ دینے سے انکار کے باوجود احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ منظور پشتین نے آج اتوار 22 اپریل کو اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’ہم خاموش نہیں رہیں گے، ہم ہر قیمت پر احتجاج جاری رکھیں گے۔‘‘
پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم رواں برس فروری میں کراچی میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد معرضِ وجود میں آئی تھی۔
حال ہی میں ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں پی ٹی ایم کے روح رواں منظور پشتین نے کہا تھا کہ اُن کی تحریک پشتونوں کے حقوق کے دفاع کے لیے ہے اور تمام مطالبات پاکستان کے آئین کے مطابق ہیں۔
ص ح/ اے ایف پی
لاپتہ ہونے والے افراد کون ہیں؟
پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران طالبان مخالف پانچ ایسے بلاگرز پرسرار طور پر لاپتہ ہو گئے، جو انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ لاپتہ ہونے والی یہ شخصیات کون ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
ثمر عباس
پاکستانی شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک ثمر عباس انتہا پسندی کے خلاف قائم ’سول پروگریسیو الائنس‘ کے سربراہ ہیں۔ عباس کے ساتھی طالب رضا کے بقول عباس ایک محب وطن شہری ہیں اور وہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے حق میں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کوئی ریاست مخالف رویہ نہیں ہے۔
تصویر: privat
سلمان حیدر
انسانی حقوق کے فعال کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری بروز جمعہ اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم سلمان حیدر انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن ہیں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنے کے علاوہ لاپتہ افراد کے بارے میں بھی مہم چلا رہے ہیں۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ ایک کالم نویس اور تھیٹر آرٹسٹ کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
احمد وقاص گورایہ
سوشل میڈیا پر فعال احمد وقاص گورایہ (دائیں) چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ وقاص سے رابطہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہالینڈ میں رہنے والے وقاص چھٹیوں پر پاکستان گئے تھے کہ لاپتہ ہو گئے۔ سائبر سکیورٹی تھنک ٹینک ’بائیٹس فار آل‘ کے سربراہ شہزاد احمد کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان سرگرم سماجی کارکنوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خوف پیدا ہو چکا ہے۔
عاصم سعید
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ عاصم سعید بھی چار جنوری کو لاپتہ ہوئے۔ سنگاپور سے پاکستان جانے والے عاصم سعید کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اس پیشرفت پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ امریکا نے بھی یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress.com
احمد رضا نصیر
سوشل میڈیا پر بہت فعال احمد رضا نصیر سات جنوری کو اچانک لاپتہ ہو گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں پولیو کے مرض کے جسمانی اثرات کا بھی سامنا ہے۔ ان لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کے لیے اسلام آباد اور کراچی میں احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی گئی ہیں۔