لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں جرمن فوڈ فیسٹیول کے نام سے جرمنی کے کھانوں کا ایک سات روزہ میلہ جاری ہے۔ اس فوڈ فیسٹیول میں ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہے۔
اشتہار
جرمن فوڈ فیسٹیول کے آغاز پر لاہور کے آواری ہوٹل میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں سفارت کاروں، ممتاز صنعت کاروں، جرمن شہریوں، صحافیوں، غیر ملکی مہمانوں اور فوڈ بلاگرز کے ساتھ ساتھ ممتاز شہریوں نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر افتتاحی تقریب کے لیے ہوٹل میں واقع ایک چھوٹے سے سرسبز گوشے کو جرمنی کے پرچموں، رنگ برنگی روشنیوں اور خوبصورت جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ تقریب کے شرکاء کو جرمن ثقافت سے متعارف کروانے کے لیے پوسٹرز بھی لگائے گئے تھے جن پر جرمنی کی عمارتوں اور تاریخی مقامات کی تصاویرموجود تھیں۔ اس تقریب میں جرمن موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا۔
ہوٹل کے 'ہینگنگ گارڈن‘ میں ہونے والی افتتاحی تقریب کے وسطی حصے میں جرمن کھانوں کی مقبول ڈشز کو سلیقے سے سجایا گیا تھا۔ تقریب کے ایک کونے پر شیف حضرات کی ایک ٹیم تازہ اور گرم جرمن کھانے تیار کر کے براہ راست مہمانوں کو پیش کر رہی تھی۔ اس موقع پر ہونے والی ایک مختصر تقریب میں شرکاء کو بتایا گیا کہ جرمن شیف کے بنے ہوئے جرمن کھانے اس سات روزہ میلے کے دوران پاکستانی اور غیر ملکی شائقین کے لیے دستیاب رہیں گے۔
ہوٹل کے جنرل منیجر مسٹر ہارٹ مُٹ نوک نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ انہیں یہ کھانے پسند آئیں گے۔
تقریب میں شریک ایک سینیئر صحافی میاں حبیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ ایک خوش کن عمل ہے کہ پاکستان میں جب سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ہے اور امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے تب سے یہاں سماجی، ثقافتی اور ادبی تقریبات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اُن کے نزدیک جرمن فوڈ فیسٹیول سے نا صرف بیرونی دنیا میں ایک اچھا پیغام جاتا ہے بلکہ اس طرح کی تقریبات سے پاکستان کا امیج بہتر کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
تقریب میں شریک ایک اور شہری قاسم محمود نے بتایا کہ اس تقریب میں جہاں مہمانوں کے لیے بہت سارے جرمن کھانے پیش کیے گئے ہیں، وہاں پاکستانی کھانے بھی دستیاب ہیں۔ اس سے جرمن مہمانوں کو پاکستانی ذائقوں کا بھی تجربہ حاصل ہو گا۔
پاکستان سے خاص لگاؤ رکھنے والا جرمن جوڑا
جرمن دارالحکومت برلن کا ایک جوڑا اب تک دنیا کے کئی ممالک کا سفر کر چکا ہے۔ نت نئی ثقافتوں کے بارے میں جاننا ان کا شوق ہے لیکن پاکستان سے انہیں خاص لگاؤ ہے۔ یہ جوڑا پاکستان کے ایک دیہی اسکول کی مالی سرپرستی بھی کر رہا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
رنگوں اور جھنڈوں سے سجی گاڑی
برلن کے اس جوڑے نے اپنی گاڑی کو ہر اس ملک کے جھنڈے اور وہاں بولی جانی والی زبانوں میں لکھی عبارتوں اور اشعار سے سجا رکھا ہے، جس کا انہوں نے سفر کیا۔ یوں یہ گاڑی دیکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
چین کی سرحد اور برف پوش پہاڑ
جرمنی سے براستہ پولینڈ، روس، ایران اور وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا یہ جرمن جوڑا خنجراب پاس کے ذریعے چین سے پاکستان میں داخل ہوا۔
تصویر: Vogel/Bläse
ایک تصویر یہاں بھی
شمالی علاقہ جات کے بلند و بالا برفیلے پہاڑ اور دلکش مناظر اس جرمن جوڑے کو کئی مرتبہ پاکستان کے سفر پر مائل کر چکے ہیں۔
تصویر: Vogel/Bläse
ہر سفر یادگار
شاہراہ قراقرم کے بل کھاتے راستوں پر برلن کے اس جوڑے کا یہ پہلا سفر نہیں تھا لیکن اوٹے اور آندریاز کے لیے اس شاہراہ کا ہر سفر یاد گار اور تاریخی ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
پر خطر راستہ
اس سفر میں کئی مشکل مقامات گزرے لیکن کوئی خطرہ ان کے شوق کی راہ میں حائل نہیں ہو سکا۔
تصویر: Vogel/Bläse
کریم آباد کے رستے میں
سلک روڈ پر کریم آباد کی طرف جاتے ہوئے یوں تو کئی دل موہ لینے والے مقامات آئے۔ لیکن اوٹے کے بقول اس جگہ کی خوبصورتی کی بات الگ ہی تھی۔
تصویر: Vogel/Bläse
عطا آباد جھیل
لینڈ سلائڈنگ کے بعد وجود میں آنے والی عطا آباد جھیل کو پار کرنے کے لیے انہیں اپنی جیپ کشتی کے ذریعے دوسرے کنارے لے جانا تھی۔ آندریاز اور اوٹے کے لیے یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔
تصویر: Vogel/Bläse
مقامی لوگوں کی مدد
برلن کے اس سیاح جوڑے کا کہنا ہے کہ عطا آباد جھیل پار کرنے میں جس طرح مقامی لوگوں نے ان کی مدد اور رہنمائی کی، وہ ان کے لیے ناقابل فراموش ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
سرگودھا کے قریب کائفا اسکول
یہ جوڑا سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں واقع کائفا اسکول کی مالی طور پر سرپرستی بھی کر رہا ہے۔ اس اسکول میں 70 فیصد مسلمان اور 30 فیصد مسیحی بچے زیر تعلیم ہیں۔
تصویر: Vogel/Bläse
سلائی کڑھائی کا ہنر
اس اسکول میں طالبات کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ آندریاز اور اوٹے کی رائے میں یہ ہنر مقامی خواتین کو خود کفیل بنا سکتا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
10 تصاویر1 | 10
ان کے بقول پاکستان میں جرمنی کے ایک سابق سفیر مارٹن کوبلر پاکستان کے سیاحتی مقامات کے دوروں میں بریانی اور نان، مٹن سمیت پاکستانی کھانے شوق سے کھایا کرتے تھے اور اس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس طرح کی تقریبات پاکستان اور جرمنی کے لوگوں کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔
جرمن سفیر کو آخر کار اپنی پسند کی سائیکل مل ہی گئی
پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر کی جانب سے پاکستانی سائیکل کی خریداری اور پھر اس پر ٹرک آرٹ کروانے کا فیصلہ ٹوئٹر پر ان کے فینز کو خوب پسند آیا۔
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
پاکستان سے باہر تیار کی گئی سائیکلیں
کچھ روز قبل مارٹن کوبلر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر راولپنڈی شہر کے ایک بازار کی تصاویر شیئر کیں جہاں سے وہ پاکستان میں بنی ہوئی ایک سائیکل خریدنا چاہتے تھے۔ کوبلر کے مطابق انہیں بازار میں زیادہ تر ایسی سائیکل ملیں جو پاکستان سے باہر تیار کی گئی تھیں۔
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
پاکستان میں تیار کردہ پیکو کمپنی کی سائیکل مل ہی گئی
کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد انہیں بالآخر پاکستان میں تیار کردہ پیکو کمپنی کی سائیکل مل ہی گئی۔ کوبلر نے اپنے لیے لال رنگ کی ایک سائیکل پسند کی۔ خیال رہے کہ پیکو کے علاوہ پاکستان میں سہراب نامی کمپنی بھی سائیکل تیار کرتی ہے۔
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
سرخ رنگ والی خرید لی
ان تصاویر کے ساتھ جرمن سفیر نے ٹوئیٹ کیا، ’’اُف، انتخاب کے حوالے سے کیا مشکل دن تھا، پاکستان میں تیار کر دہ سائیکل لینا چاہی، پہلے تو یہ تلاش کرنا مشکل تھی۔ تمام غیر ملکی تیار شدہ!! پھر آخرکار راولپنڈی میں مل گئی۔ پھر یہ فیصلہ مشکل ہو گیا کہ سہراب لی جائے یا پیکو؟ آخرمیں، یہ سرخ رنگ والی خرید لی۔ جس پہ گھنٹی بھی ہے۔ آپ لوگوں کو کیسی لگی؟‘‘
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
سائیکل کو مزید پاکستانی بنانے کی خواہش
مارٹن کوبلر کی ٹوئیٹس کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اب وہ اپنی سائیکل کو مزید پاکستانی بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔مارٹن کوبلر نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، ’’میں اپنی روزمرہ زندگی میں مقامی پاکستانی رنگ چاہتا تھا۔ لہٰذا اپنی نئی پاکستانی سائیکل حاجی پرویز صاحب کے پاس لے گیا۔ وہ رنگوں کے ساتھ کھیلنا جانتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیسی آرٹ میری سائیکل پر سجتی ہے۔‘‘ اب اس کا بےصبری سے انتظار ہے۔‘‘
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
سائیکل کو شاندار رنگوں سے بھر دیا
وہ اپنی سائیکل کو ٹرک آرٹسٹ حاجی پرویز کے پاس لے گئے۔ حاجی پرویز نے ان کی سائیکل کو شاندار رنگوں سے بھر دیا۔ جرمن سفیر نے اپنی نئی خوبصورت سائیکل کی تصویر کے ساتھ ٹوئٹر پہ لکھا، ’’میری پاکستانی سائیکل کمال کے ٹرک آرٹ کے ساتھ تیار ہے۔ پنڈی کی گلیوں میں کچھ دیر چلائی بھی۔ مزہ آیا! اگر آپ گھنٹی کے بارے میں سوچ رہے ہیں، تو وہ بھی کام کرتی ہے۔بتائیں، رنگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
مارٹن کوبلر کے قریب پونے دو لاکھ فالورز
اس خوبصورت مصوری کو کئی لوگوں نے سراہا۔ ٹوئٹر پر مارٹن کوبلر کے قریب پونے دو لاکھ فالورز ہیں۔ انہی میں سے ایک نصیر عباسی نے لکھا،’’ بہت ہی کمال لگ رہی ہے آپ کی پاکستان کے لیے ہر کاوش ہم پر قرض ہے ہم آپ کے ممنون ہیں کے آپ ہمیں مثبت راہ پر چلنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘‘
تصویر: facebook.com/GermanEmbassyIslamabad
پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ
ایک اور فالوئر مدثر اعوان نے لکھا، ’’سائکل باکمال ہے لیکن آپ کی پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ اور عمل واقعی شاندار ہے۔‘‘