پاکستانی شہر لاہور میں ہونے والے ایک دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم چھبیس افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس خونریز کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے رسکیو سروس کے ترجمان جام سجاد حسین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ دھماکا وسطی لاہور کی ایک سبزی مارکیٹ میں ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ چوبیس جولائی بروز پیر فیروز پور روڈ پر واقع ارفع کریم ٹاور کے قریب ہونے والے اس دھماکے کے بعد امدادی کارکن فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے رسکیو اور سرچ آپریشن شروع کر دیا۔
سجاد حسین نے بیس سے زائد ہلاکتوں اور باون افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زخمیوں اور لاشوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ہنگامی صورتحال کے تحت امدادی کام جاری ہیں۔
لاہور میں خودکش حملہ
01:18
This browser does not support the video element.
مقامی میڈیا کے مطابق لاہور کے جس علاقے میں یہ دھماکا ہوا ہے، وہاں ناجائز تجاوزات کے خلاف پہلے سے ہی پولیس کی کارروائی جاری تھی اور اس لیے وہاں پولیس تعینات تھی۔
بظاہر اس حملے میں پولیس اہلکاروں کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک خودکش کارروائی ہو سکتی ہے تاہم اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم تحریک طالبان پاکستان نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ اس دھماکے کی وجہ جاننے کی خاطر تفتیشی عمل جاری ہے۔
قبل ازیں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس دھماکے کے فوری بعد ایک پریس کانفرنس میں ہلاکتوں کی تعداد چودہ بتائی اور کہا کہ مرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ممکن ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا، ’’ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ دہشت گردانہ حملہ تھا یا حادثاتی دھماکا۔‘‘
پاکستان کی پہلی بم ڈسپوزل آفیسر
رافعہ سات برس قبل خیبر پختونخوا پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئی تھیں۔ اُس وقت خیبرپختونخوا میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ اب رافعہ بم ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی پہلی بم ڈسپوزل افسر بن چکی ہیں۔
تصویر: Hassan Farhan
دہشت گردی کے خلاف جنگ
29 سالہ رافعہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب وہ پولیس میں بھرتی ہوئی تھیں تب صوبے میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ انہوں نے بتایا،’’پولیس میں بھرتی کے ابتدائی دنوں ہی میں سیشن عدالت کے قریب ایک بم دھماکا ہوا تھا اور میں نے تب ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بنوں گی۔‘‘
تصویر: DW/F. Khan
کئی پولیس آپریشنز میں حصہ
ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈگری یافتہ رافعہ نے کئی پولیس آپریشنز میں بھی حصہ لیا۔ پشاور کا علاقہ متنی ایک وقت میں دہشت گردوں کے قبضے میں تھا۔ اس علاقے میں رافعہ نے فوج اور ایف سی کے ساتھ مل کر آپریشن میں حصہ لیا اور علاقے سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا۔
تصویر: Hassan Farhan
ڈاکٹر انتخاب عالم کی بازیابی
ڈاکٹر انتخاب عالم کو دہشت گردوں سے بازیاب کرانے کے آپریشن میں رافعہ بھی شامل تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ڈاکٹر انتخاب عالم کو بازیاب کرانے کے لیے تین روز تک آپریشن کیا گیا، اس آپریشن میں 40 مرد پولیس اہلکاروں کے ساتھ میں واحد خاتون پولیس اہلکار تھی۔‘‘
تصویر: Hassan Farhan
دیسی ساختہ بموں کو ناکارہ بنانا
رافعہ کہتی ہیں کہ وہ دو مرتبہ دیسی ساختہ بموں کو ناکارہ بنا چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تربیت میں یہ سکھایا گیا ہے کہ انتہائی کم وقت میں کیسے ایک بڑا نقصان ہونے سے بچانا ہے۔ رافعہ کے مطابق وہ ایشاء کی پہلی پولیس افسر ہیں جو بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بنی ہے۔
تصویر: Getty Images
خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ ہونے پر فخر ہے
رافعہ کہتی ہیں کہ انہیں فخر ہے کہ وہ خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ ہیں جس نے انتہائی کم وسائل کے ساتھ دہشت گردوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا ہے۔
تصویر: Hassan Farhan
دہشتگردوں سے خطرہ اب بھی ہے
رافعہ کے مطابق خیبر پختونخوا سمیت پاکستان بھر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے لیکن اب بھی دہشت گردی کے واقعات کا خطرہ ہے۔ وہ اپنے ملک کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: Hassan Farhan
مزید لڑکیاں بھی رافعہ کے مشن کو اپنا رہی ہیں
رافعہ سے متاثر ہو کر اب خیبر پختوانخوا میں مزید گیارہ لڑکیوں نے بھی بم ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کر لی ہے۔