لاہور میں دہشت گردانہ حملے ، تحقیقات شروع
15 اکتوبر 2009پنجاب پولیس، خفیہ اداروں اور سیکیورٹی کے اداروں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات ایک اہم اجلاس منعقد کیا، جس میں ان حملوں کی تحقیقات کے حوالے سے حکمتِ عملی طے کی گئی۔
اس اجلاس کے بعد پنجاب میں فوری طور پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ پنچاب کے مختلف علاقوں میں پولیس نے مشکوک افراد کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ لاہور اور اس کے گردو نواح سے کم از کم چھ افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ملی ہیں۔ تفتیشی حکام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے جسمانی اعضاءکا معائنہ کیا جا رہا ہے اور ان کے انگلیوں کے نشانات کی مدد سے بھی ان کی شناخت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب پولیس کے اعلیٰ حکام اس حوالے سے تفصیلات ذرائع ابلاغ کو فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تا ہم ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں کسی بڑی پیش رفت کی صورت میں میڈیا کو اس سے آگاہ کیا جائے گا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جمعرات کو لاہور میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 38 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں ایک درجن کے لگ بگ افراد کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا جبکہ ان حملوں میں کئی شہری بھی اپنی جان کھو بیٹھے تھے۔ دہشت گردی کی تینوں واردات میں حصہ لینے والے نو دہشت گردوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
جمعرات کی صبح ساڑھے نو بجے کے قریب دہشت گردوں نے وفاقی تحقیقات ادارے ایف آئی کی عمارت کے علاوہ مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر اور بیدیاں روڈ پر واقع ایلیٹ پولیس فورس کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کئے تھے۔ ان حملوں میں دہشت گردوں نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی اور دستی بمبوں کے علاوہ جدید اسلحے کا استعمال کیا۔
بیدیاں روڈ پر واقع ایلیٹ فورس کا ہیڈ کوارٹر دہشت گردوں کا سب سے بڑا نشانہ تھا۔ یہاں دہشت گردوں کے خلاف کئے جانے والے آپریشن میں فوج نے بھی حصہ لیا۔ یہاں پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور کے جنرل کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل شفقات احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے۔ تمام دہشت گرد ہلاک کر دئے گئے ہیں۔ گرکی ہسپتال میں زیر ِ علاج افتخار نامی ایک پولیس اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر پر پولیس اہلکار معمول کی پریڈ کے لئے جمع ہو رہے تھے کہ ان پر گولیوں کی بارش کر دی گئی۔ ان کے مطابق دہشت گردوں کا حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ نہتے پولیس اہلکاروں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے ٹریننگ سینٹر کی دیواریں پھلانگنا پڑیں۔
ذمہ دار کون ؟
لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے تین واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان کے فاروقی گروپ نے قبول کی ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ القاعدہ، تحریک ِ طالبان پاکستان، لشکر ِ جھنگوی اور دیگر شدت پسند تنظیمیں مل کر ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان حملوں میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن جب تک مکمل شواہد سامنے نہ آ جائیں تب تک کسی ملک کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔ پنجاب کے وزیر ِ قانون رانا ثناءاﷲ نے صحافیوں کو بتایا کہ سوات، مالا کنڈ اور جنوبی وزیر ستان میں سرگرم شدت پسند تنظیمیں ہی لاہور پر ہونے والےحملوں میں ملوث دکھائی دیتی ہیں۔
دہشت گردی کے نئے رجحان
جمعرات کے روز لاہور میں ہونے والے حملوں میں دہشت گردوں کی طرف سے نئی حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر اور ایف آئی اے کی عمارت پر حملے سے دہشت گردی کا یہ نیا رجحان ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرداب ان عمارتوں پر بھی دوبارہ حملے کر سکتے ہیں، جنہیں ماضی میں بھی وہ دہشت گردی کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
لاہور میں ہونے والے ان حملوں میں دہشت گردوں نے ماضی کی طرح خود کش جیکٹوں کے ذریعے بم دھماکے کرنے کی بجائے جدید اسلحے سے شہریوں اور پولیس اہلکاروں کو پہلے نشانہ بنایا اور پھر انہوں نے دھماکہ خیز مواد سے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ بیشتر حملہ آور اپنے ساتھ تھیلوں میں لپیٹ کر لائی جانے والی خود کش جیکٹوں کو استعمال نہیں کر سکے۔ پولیس کی طرف سے اپنائی جانے والی نئی حکمتِ عملی کی وجہ سے کوئی بھی دہشت گرد بچ کر نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح سخت حفاظتی انتظامات کی بدولت دہشت گردی کی ان وارداتوں میں اگرچہ سینکڑوں لوگوں پر حملہ کیا گیا لیکن انسانی نقصان زیادہ نہیں ہوا۔
حکومتی اپیل
پاکستان میں وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر حکام کی طرف سے عوام سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایک سرگرم شہری کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جدو جہد میں حصہ لیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی کسی بھی مشکوک سرگرمی کو اپنے موبائل فون کے ذریعے محفوظ کر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایس ایم ایس کریں۔ وزراتِ داخلہ کی طرف سے کراچی کی طرز پر لاہور میں بھی نوجوان فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد کے نواح میں چند ماہ پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اطلاع دی تھی کہ ایک مشکوک مکان میں ہر روز کھانے کے وقت ساٹھ روٹیاں لے جائی جاتی ہیں جب کہ وہاں پر زیادہ لوگ مکان میں رہتے نظر نہیں آتے۔ اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپہ مار کر اس مکان سے ایک بڑے جرائم پیشہ گینگ کو گرفتار کر لیا تھا۔
تازہ صورتحال
لاہور حملوں کے بعد کئی سرکاری افسران اپنے دفتروں میں بیٹھنے سے گریز کر رہے ہیں صوبائی حکومت اگلے چند دنوں کے لئے تعلیمی ادارے بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔ شہر بھر میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دئے گئے ہیں۔ سرکاری عمارتوں پر پاکستان کے رینجرز کے جوان تعینات کئے جا رہے ہیں۔ کسی دہشت گردی کی مزید کارروائی کے خدشے کے پیشِ نظر ہسپتالوں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ شہر میں داخل ہونے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے اور شہر بھر کی پولیس مختلف علاقوں میں مقیم کرایہ داروں کے کوائف اکٹھے کر رہی ہے۔ پاکستان کے سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں کی طرف سے لاہور حملوں کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلوں پر ملی نغمے بھی سنوائے جا رہے ہیں۔
رحمان ملک کا دورہء لاہور
پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک مختصر ہنگامی دورے پر جمعرات کی شام لاہور پہنچے اور متاثرہ اداروں کا دورہ کیا اس موقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایلیٹ فورس کے جوانوں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کر کے بہادری اور جرات مندی کی جو مثال قائم کی ہے اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کیپسٹی بلڈنگ کے لئے ہم ڈیویلپمنٹ بجٹ کاٹ کر رقوم فراہم کر رہے ہیں۔ عنقریب چائنہ سے بلٹ پروف جیکٹیں، موبائل سکینر اور دیگر سامان پاکستان پہنچ رہا ہے، جس سے سیکیورٹی کے اداروں کی صلاحیت بڑھانے میں مدد ملے گی۔
مالی امداد
وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لئے تیس تیس لاکھ روپے، ان واقعات میں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہریوں کے لئے تین تین لاکھ روپے، شدید زخمیوں کے لئے 75 ہزار روپے جبکہ معمولی زخمیوں کے لئے 50 ہزار روپے فی کس مالی معاونت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے جاں بحق ہونے والے پولیس کے اہلکاروں کے ایک ایک بچے کو ملازمت دینے جبکہ ان کی بیوہ ہوجانے والی عورتوں کو پوری تنخواہ اور تاحیات پنشن دینے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے وفاقی حکومت کی طرف سے ان پولیس اہلکاروں کو پلاٹ دینے اور دیگر ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور
ادارت : عاطف توقیر