1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے معروف کامیڈین امان اللہ زندگی کی بازی ہار گئے

6 مارچ 2020

لاکھوں شائقین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے پاکستان کے ممتاز مزاحیہ اداکار امان اللہ جمعے کے روز لاہور میں انتقال کر گئے۔

Der Comedian Aman Ullah
تصویر: DW/T. Shahzad

حکومت پاکستان کی طرف سے تمغۂ حسنِ کارکردگی کا اعزاز پانے والے چھیاسٹھ سالہ مزاحیہ اداکار امان اللہ گردوں اور پھیپھڑوں کی تکلیف کے باعث لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کے انتقال کی خبرسنتے ہی شوبز کے حلقوں کی تمام سرگرمیاں معطل ہوگئیں ، الحمراء آرٹس کونسل کی انتظامیہ کی جانب سے بھی امان اللّٰہ کی وفات کے بعد ایک روزہ سوگ کے ساتھ الحمرا آرٹس سنٹر میں اسٹیج ڈرامے روک دئیے گئے۔

امان اللّٰہ خان سن 1954 میں گوجرانوالہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن سے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے پھیری لگا کر چیزیں بیچنا شروع کر دیا۔ انہوں نے سب سے پہلے سِکسر نامی ایک سٹیج ڈرامے سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور پھر ان کے بہت سے ڈرامے اندرون اور بیرون ملک مقبول ہوئے۔

وہ خبرناک سمیت ٹی وی کے کئے مزاحیہ شوز کا بھی حصہ رہے۔ اپنے چونتیس سالہ کیریئر میں امان اللہ نے طویل عرصے تک مسلسل سٹیج شوز پر اداکاری کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی بنایا۔ امان اللّٰہ نے 3 شادیاں کیں، جبکہ 7 بیٹے اور 7 بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں، ان کی نمازِ جنازہ جمعے کی شام پیراگون سوسائٹی لاہور میں ادا کی گئی۔

مشہور پاکستانی اداکار سہیل احمد نے امان اللہ کی رحلت کو مزاح کی موت سے تعبیر کیاتصویر: DW/T. Shahzad

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امان اللہ کے قریبی ساتھی اور ممتاز کامیڈین سہیل احمد نے بتایا، ''امان اللہ نے اپنی پوری زندگی مسراہٹیں بانٹتے ہوئے گزاری، ان کی موت دراصل پاکستان میں مزاح کی موت ہے، مسکراہٹوں اور قہقہوں کی موت ہے، ان کی موت سے مزاحیہ سٹیج اداکاری کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔‘‘

سہیل احمد نے مزید کہا، ''وہ ایک جنونی فنکار تھا جو اپنے دکھ فراموش کرکے بھی سٹیج پرڈرامے کرتا رہا، ایک مرتبہ ڈرامے کے دوران انہیں گھر میں ڈکیتی کی واردات کی خبر ملی لیکن وہ اپنا ڈرامہ مکمل کرنے کے بعد ہی گھر روانہ ہوئے۔‘‘ سہیل احمد نے بتایا کہ امان اللہ اپنے کلچر اور اپنے ملک کے حالات و واقعات بیان کرکے لوگوں کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیا کرتے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں سہیل احمد نے بتایا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں کو ہنسانے والے فنکاروں کی اپنی زندگیاں مسائل اور دکھوں سے بھری رہتی ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ الحمرا آرٹس سنٹر لاہور کے ایک ہال کو امان اللہ کے نام سے موسوم کیا جائے۔

امان اللّٰہ خان سن 1954 میں گوجرانوالہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھےتصویر: DW/T. Shahzad

معروف سٹیج اداکارہ اور امان اللہ کے ساتھ سٹیج ڈرامے پر کام کرنے والی شیبا بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امان اللہ کی موت پاکستان کی شوبز انڈسٹری کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ''میں نے ان کے ساتھ دو سو سے زائد سٹیج ڈراموں میں کام کیا ہے ان کے ساتھ جرمنی، امریکہ اور یورپ کے دورے بھی کئے ہیں، ان کی موت پر بھارت سمیت دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے دکھی ہیں۔

شیبا بٹ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ امان اللہ اپنے کیریئر کے آخری دنوں میں مسائل کا شکار رہے ہیں، انہیں دکھ تھا کہ سٹیج پر ہونے والے غیر شائستہ ڈانسز نے فنکاروں کی اہمیت کم کر دی ہے، اگر انہیں ٹی وی چینلز پر کام نہ ملتا تو وہ بہت عرصہ پہلے زندگی کی جنگ ہار جاتے۔

ایک اور سٹیج اداکارہ میگھا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ایک اچھے فنکار ہی نہیں بلکہ ایک بہت اچھے انسان بھی تھے وہ جونئیر فنکاروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے اور ان کی رہنمائی کرتے۔ ان کے بقول امان اللہ کے نام پے مزاحیہ اداکاروں کی تربیت کے لئے ایک اکیڈمی بنائی جانی چاہیے اور امان اللہ کے نام پر نئے مزاحیہ اداکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے سالانہ ایوارڈز دئیے جانے چاہیئں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں