لاہور میں کار بم دھماکے کا مشتبہ مرکزی ملزم گرفتار
24 جون 2021
پاکستانی سکیورٹی فورسز نے لاہور میں حالیہ کار بم دھماکے کے مبینہ مرکزی مشتبہ ملزم کو لاہور ایئر پورٹ سے گرفتار کر لیا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے اس بم دھماکے کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور پچیس دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
اشتہار
پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جمعرات چوبیس جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس بم دھماکے کی چھان بین کے اب تک کے نتائج سے واقف سہیل احمد نامی ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ اسی شہر میں کل بدھ کے روز یہ کار بم حملہ اس وقت زیر حراست بھارت مخالف عسکریت پسند رہنما حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب کیا گیا تھا۔
ملزم کی گرفتاری لاہور ایئر پورٹ سے
سہیل احمد نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا اس دھماکے کے ذمے دار افراد میں سے ایک مرکزی مشتبہ ملزم کو آج اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب وہ لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے بیرون ملک روانہ ہونے کی کوشش میں تھا۔ اس سکیورٹی اہلکار نے مزید کوئی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا اور صرف اتنا کہا کہ گرفتار کیے گئے ملزم کا نام ڈیوڈ پیٹر ہے اور وہ پاکستانی شہری ہے۔
پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سول ہسپتال کے سامنے آج پیر آٹھ اگست کو ہونے والے ایک طاقت ور بم دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور بیسیوں دیگر زخمی ہو گئے۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے نتیجے وہاں موجود ؤر آنکھ پرنم نظر آئی جبکہ ہلاک ہونے والوں کے رشتہ دار اور دوست اپنے جاننے والوں کو دلاسہ دیتے اور صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
شام اور عراق میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہ مقامی عسکری گروپ ہو سکتے ہیں، جو داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس بم حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وکلاء اور صحافیوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی انتظامات فوری طور پر مزید بہتر بنائے جائیں۔
تصویر: Reuters/Naseer Ahmed
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس بم حملے میں مقامی وکلاء اور ان کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ صوبائی وزیر صحت نے اپنے ایک بیان میں ہلاک شدگان کی تعداد 93 بتائی ہے۔ اس تعداد کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
تصویر: Reuters/N. Ahmed
پولیس کے مطابق یہ بم دھماکا اس وقت کیا گیا جب سول ہسپتال کوئٹہ کے باہر بہت سے وکلاء جمع تھے، جن کے ایک سینئر ساتھی کو آج ہی قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستانی نجی ٹی وی اداروں کے مطابق اس دھماکے میں جو کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 25 کے قریب وکلاء بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
سہیل احمد نے بتایا کہ مشتبہ ملزم ڈیوڈ پیٹر کو ملکی خفیہ اداروں کی مدد سے صوبہ پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام نے گرفتار کیا اور اس بارے میں جلد ہی حکومت ایک باقاعدہ بیان جاری کرنے والی ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں اس کار بم دھماکے کے مشتبہ ملزم کی گرفتاری سے چند ہی گھنٹے قبل پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ پنجاب پولیس لاہور بم دھماکے کے ذمے داران کو گرفتار کرنے ہی والی تھی۔
م م / ک م (اے پی)
پاکستان کی پہلی بم ڈسپوزل آفیسر
رافعہ سات برس قبل خیبر پختونخوا پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئی تھیں۔ اُس وقت خیبرپختونخوا میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ اب رافعہ بم ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی پہلی بم ڈسپوزل افسر بن چکی ہیں۔
تصویر: Hassan Farhan
دہشت گردی کے خلاف جنگ
29 سالہ رافعہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب وہ پولیس میں بھرتی ہوئی تھیں تب صوبے میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ انہوں نے بتایا،’’پولیس میں بھرتی کے ابتدائی دنوں ہی میں سیشن عدالت کے قریب ایک بم دھماکا ہوا تھا اور میں نے تب ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بنوں گی۔‘‘
تصویر: DW/F. Khan
کئی پولیس آپریشنز میں حصہ
ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈگری یافتہ رافعہ نے کئی پولیس آپریشنز میں بھی حصہ لیا۔ پشاور کا علاقہ متنی ایک وقت میں دہشت گردوں کے قبضے میں تھا۔ اس علاقے میں رافعہ نے فوج اور ایف سی کے ساتھ مل کر آپریشن میں حصہ لیا اور علاقے سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا۔
تصویر: Hassan Farhan
ڈاکٹر انتخاب عالم کی بازیابی
ڈاکٹر انتخاب عالم کو دہشت گردوں سے بازیاب کرانے کے آپریشن میں رافعہ بھی شامل تھیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ڈاکٹر انتخاب عالم کو بازیاب کرانے کے لیے تین روز تک آپریشن کیا گیا، اس آپریشن میں 40 مرد پولیس اہلکاروں کے ساتھ میں واحد خاتون پولیس اہلکار تھی۔‘‘
تصویر: Hassan Farhan
دیسی ساختہ بموں کو ناکارہ بنانا
رافعہ کہتی ہیں کہ وہ دو مرتبہ دیسی ساختہ بموں کو ناکارہ بنا چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تربیت میں یہ سکھایا گیا ہے کہ انتہائی کم وقت میں کیسے ایک بڑا نقصان ہونے سے بچانا ہے۔ رافعہ کے مطابق وہ ایشاء کی پہلی پولیس افسر ہیں جو بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بنی ہے۔
تصویر: Getty Images
خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ ہونے پر فخر ہے
رافعہ کہتی ہیں کہ انہیں فخر ہے کہ وہ خیبر پختونخوا پولیس کا حصہ ہیں جس نے انتہائی کم وسائل کے ساتھ دہشت گردوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا ہے۔
تصویر: Hassan Farhan
دہشتگردوں سے خطرہ اب بھی ہے
رافعہ کے مطابق خیبر پختونخوا سمیت پاکستان بھر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے لیکن اب بھی دہشت گردی کے واقعات کا خطرہ ہے۔ وہ اپنے ملک کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: Hassan Farhan
مزید لڑکیاں بھی رافعہ کے مشن کو اپنا رہی ہیں
رافعہ سے متاثر ہو کر اب خیبر پختوانخوا میں مزید گیارہ لڑکیوں نے بھی بم ناکارہ بنانے کی تربیت حاصل کر لی ہے۔