سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قصور کے خلاف لاہور کے مال روڈ پر احتجاج
17 جنوری 2018سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ قصور کے تناظر میں اپوزیشن پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وزیر قانون سے استعفیٰ طلب کر رہی ہیں۔ شہریوں کی شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
قبل ازیں آج لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کو مال روڈ پر احتجاجی جلسہ کرنے کی اجازت دے دی تاہم لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ یہ جلسہ رات 12 بجے سے پہلے ختم کرنا ہوگا۔ اس عدالتی حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد میڈیا کو بھی اس احتجاجی جلسے کی کوریج کی اجازت نہیں ہوگی۔
دوسری طرف پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ پر اس وقت اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج بظاہر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ قصور کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کی دعوت پر پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ قاف سمیت حزب اختلاف کی کئی سیاسی جماعتیں اس احتجاج میں شریک ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ اپنے عہدوں سے استعفے دیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آ گئی
ماڈل ٹاؤن میں قتل ہونے والوں کا قصاص چاہتے ہیں، طاہر القادری
لاہور کے مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کے جلسے کے لیے کنٹینر لگا کر خصوصی طور پر بنائے گئے اسٹیج پر اپوزیشن کے رہنما موجود ہیں۔ اس جلسے کے لیے خاص طور پر ایک مزاحمتی نغمہ ’’ظالمو جواب دو خون کا حساب دو‘‘ بھی وقفے وقفے سے سنایا جا رہا ہے۔ مال روڈ سے ملحقہ علاقے میں تمام تعلیمی اور کاروباری ادارے بند ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور، نیشنل کالج آف آرٹس اور پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کو بھی اس احتجاج کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ لاہور کے چڑیا گھر کو بھی احتجاج کے پیش نظر بند رکھا گیا ہے اور ایک درجن سے زائد بینکوں میں بھی کوئی لین دین نہیں ہو سکا۔ مریضوں کو مقامی ہسپتالوں میں پہنچے میں شدید دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اپوزیشن کے اس جلسے کے موقع پر لاہور کے ہسپتالوں میں ہنگامی صورتحال سے نمٹے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہیں آن ڈیوٹی رہنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
اس جلسے میں شرکت کے لیے لاہور کے باہر سے بھی لوگ بڑی تعداد میں پہنچے ہیں۔ اس جلسے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں دو مختلف اوقات میں عمران خان اور آصف علی زرداری بھی خطاب کریں گے۔
لاہور پولیس نے اس جلسے سے پہلے کسی دہشت گردانہ واردات کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اس جلسے کے موقع پر سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ 6,500 سے زائد پولیس اہلکار سکیورٹی کے حوالے سے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے اس احتجاج سے مسلم لیگ کی حکومت پر دباو میں اضافہ ہو گا لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اپوزیشن کی یہ تحریک حکومت کو گرانے میں کس قدر مؤثر ثابت ہو گی۔
دوسری طرف پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے بدھ کی شام قصور کا اچانک دورہ کیا اور متعلقہ حکام سے مل کر سانحہ قصور کی تحقیقات کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سانحہ قصور کے حوالے سے تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں اور یہ تحقیقات سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے قصور کے شہریوں سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس اس سانحے کے حوالے سے کوئی اطلاع ہے تو وہ متعلقہ حکام کو فراہم کریں۔